Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دھوپ

***جاوید اقبال***
26 نومبر 1964ء کی خنک سہ پہر تھی، ریڈیو پاکستان لاہور کی عریض عمارت کے پچھواڑے 2 خیمہ نما کمروں کے باہر ایک مختصر سا ہجوم تھا۔ جھنڈیاں ماحول کو خوشگوار بنارہی تھیں اور پھر گاڑیوں کا ایک قافلہ ریڈیو اسٹیشن کے صدر دروازے سے گزرتا عمارت کے پہلو میں آن رکا۔ مختصر ہجوم آگے بڑھا۔ ایک گاڑی سے صدر پاکستان جنرل ایوب خان اترے۔ آج پاکستان میں ٹیلی وژن متعارف ہورہا تھا۔ عارضی طور پر اس کے لئے ریڈیو پاکستان لاہور کے احاطے میں ہی 2 خیمہ نما بڑے کمرے تعمیر کیے گئے تھے۔ ایک میں اسٹاف کے دفاتر تھے جبکہ دوسرا اسٹوڈیو کے لئے مختص کیا گیا تھا۔ جناب صدر کو دفاتر اور اسٹوڈیو کا دورہ کرایا گیا۔ الطاف گوہر بھی ہمراہ تھے۔ اس دن مختصر خبریں پیش کرنے کے لئے کنول نصیر کا انتخاب کیا گیا تھا۔ جنرل ایوب خان نے اس سے مختصر بات چیت کی اور اسے سخت محنت کی تلقین کی اور پھر صدارتی قافلہ واپس ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پاکستانی نشریاتی تاریخ کے پہلے ٹی وی اسٹیشن کے آغاز کا اعلان کردیا گیا۔ خوش لباس اور نوجوان طارق عزیز کہہ رہے تھے ’’پی ٹی وی کی جانب سے طارق عزیز آپ سے مخاطب ہے۔ خواتین و حضرات آج جمعرات ہے اور نومبر کی 26 تاریخ۔ آج کا یادگار دن پاکستان میں ٹیلیوژن کے حوالے سے ایک تاریخ ساز دن ہے اور یوں طارق عزیز کے اس اعلان سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ ایک ایسے سفر پر گامزن ہوگئے جو آج بھی وہ رفتاں و خیزاں جاری رکھے ہیں۔
 1964ء میں لاہور ٹی وی اسٹیشن نے نشریات کا آغاز کیا۔ 1965ء میں ڈھاکا میں ٹی وی اسٹیشن قائم کیا گیا۔ اس وقت مشرقی پاکستان کا صوبائی دارالحکومت ڈھاکا تھا اور اس آغاز نے بین الصوبائی رابطوں کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت کو اپنی یادداشت سے محو نہ ہونے دینے والے پاکستانیوں کو ابھی تک وہ مدھر گیت یاد ہوں گے جو مغربی پاکستانیوں کو بنگالی سکھانے کے لئے ریڈیو پر گائے جاتے تھے۔
آئی آئی آئی ماماں باڑی جائی، مامی دیبے دودھ بھات پیٹ پور کھائی
(آئو آئو آئو ماموں کے گھر جائیں۔ ممانی دودھ چاول دے گی اور ہم پیٹ بھر کر کھائیں گے)
پھر 1965ء میں ہی تیسرے ٹی وی اسٹیشن راولپنڈی اسلام آباد سے آغاز کیا گیا اور 1966ء میں چوتھا اسٹیشن کراچی میں قائم کیا گیا۔ بڑی دلچسپ تاریخ ہے۔ پاکستان میں ٹی وی نشریات کا منصوبہ درحقیقت پرائیویٹ سیکٹر نے بنایا تھا اور 1962ء میں ان نشریات کا آغاز چند کمپنیوں نے کردیا تھا تاہم صدر جنرل محمد ایوب خان کی حکومت نے 1963ء میں ملک کے ’’وسیع تر مفاد‘‘ میں ٹی وی کو اپنی تحویل میں لے لیا اور ان کے لئے عارضی دفاتر اور اسٹوڈیو ریڈیو پاکستان کے احاطے میں قائم کردیے۔ ایک خیمے میں نشریاتی برج اور اسٹوڈیو اور دوسرے میں عملے کے دفاتر اور آغاز سفر تھا۔ 1974ء میں کوئٹہ اور پشاور میں ٹی وی اسٹیشن قائم کیے گئے جبکہ رنگین نشریات کا آغاز 1976ء میں ہوا۔ 1980ء کی دہائی میں پی ٹی وی پر صبح کی نشریات شروع کی گئیں۔ پھر محسوس کیا گیا کہ اتنے اسٹیشنوں کے لئے تربیت یافتہ عملہ اور فن کار آسانی سے دستیاب نہیں تھے۔ چنانچہ 1987ء میں پی ٹی وی اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں مختلف شعبوں کے لئے عملے کو تربیت دی جانے لگی اور پاکستان ٹیلی ویژن ایک سہانے سفر پر روانہ ہوگیا۔
 گزشتہ صدی کی 70ء اور 80ء کی دہائیاں بجا طور پر ملک میں پی ٹی وی کا دور تھیں۔ ان 2 عشروں کے دوران پی ٹی وی کی ہر پیشکش ایک کلاسیک تھی اور اس حقیقت کو ہمارے ہمسایہ ملک کے ناظرین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ مجھے ایک سکھ نے بتایا کہ جس رات پی ٹی وی پر ’’وارث‘‘ کی قسط چلنا ہوتی تھی وہ اور خاندان کے دوسرے سکھ مرد بڑی خاموشی سے کھانا کھاکر ٹی وی سیٹ کے سامنے جا بیٹھتے تھے۔ تفریح کے دیگر پروگرام منسوخ کردیتے تھے لیکن پھر بس! میری تعمیر میں مضمر تھی اک صورت خرابی کی۔ حکومت نے کمپنیوں کو اپنے ذاتی چینل کھولنے کے لئے اجازت دے دی۔ حشرات الارض کی طرح مختلف ٹی وی مراکز نے کام شروع کردیا۔ آج ملک بھر میں 37 نیٹ ورک کام کررہے ہیں اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر نیٹ ورک مختلف ناموں سے ایک ایک درجن تک اسٹیشن کھولے بیٹھے ہیں۔ آپس میں مقابلے کا یہ عالم ہے کہ ریٹنگ بہتر بنانے کے لئے یہ چینل ہر طرح کی اخلاقی اور معاشرتی حدود پارکر رہے ہیں۔ اکثر اپنی نشریات میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے اپنے کیمرے ہر جگہ گھسائے پھرتے ہیں۔ پولیس مقابلہ ہورہا ہو یا کہیں دہشت گرد محصور ہوچکے ہیں یہ لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال دکھاتے ہیں اور اس بات کا بھی خیال نہیں رکھتے کہ ان کی یہ نشریات مجرموں کو بھی پولیس کے منصوبے سے آگاہ رکھ رہی ہیں۔ اخلاقیات کی بات کریں تو متعدد پروگرام ایسے ہیں جنہیں ایک خاندان باہم بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتا۔ معصوم 10 سالہ بچوں سے ہیجان خیز رقص کرائے جارہے ہیں اور اینکر قہقہے لگاتا تالیاں بجاتا ان کے گرد گھوم رہا ہے۔ ہم ایک جذباتی اور انتہا پسند قوم ہیں۔ 26 نومبر 1964ء کی سہ پہر کو آغاز تھا اور اب انتہا کے حصول میں ہم راہ گم کئے بیٹھے ہیں۔ ساحر لدھیانوی نے کتنی خوبصورت بات کہی ہے:
جلد مانگو کوئی ماضی سے جہالت کی گھٹا
ورنہ انسان تو اس دھوپ میں جل جائے گا
 

شیئر: