کراچی (صلاح الدین حیدر) قومی احتساب ادارے یا نیب پچھلے کئی ماہ سے حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی بلکہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے بھی تنقید کے نشانے پر رہنے کے بعد بالاخر پھٹ پڑا۔ ادارے کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال لمبی چوڑی وضاحت جاری کرنے پر مجبور ہوئے۔ لوگوں کو بتایا کہ نیب نے کس قدر احتیاط اور آئین و قوانین کی حد میں رہتے ہوئے قومی خزانے میں نہ صرف غیر معمولی اضافہ کیا بلکہ ایسے بڑی بڑی قد آور شخصیات کو گرفتار کیا جن پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن تھا۔باریک بینی سے دیکھا جائے تو آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ جائینگی کہ ایک ایسا ادارہ جسے آئینی تحفظات حاصل ہے کی راہ میں نوکر شاہی یا افسران بالا نے کیسے کیسے روڑے اٹکائے کہ عقل آج بھی دنگ ہے۔ سب سے بڑی مشکل تو پاکستان اسٹیل جیسے اہم ادارے کی ہے جس کے خلاف ثبوت کی کمی سے انکوائری بند کرنا پڑی۔ یہ کسی قومی سانحہ سے کم نہیں تھا۔ اسٹیل مل دنیا بھر میں صنعت و حرفت کی ترقی میں بنیادی ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔ 1.1 ملین ٹن فولاد بنانے والا اسٹیل مل قومی اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملکی ضروریات کو پورا کرنے میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوتا ہے لیکن روس کی مدد سے 70 کی دہائی میں قائم کیے جانے والے اس کمپلیکس نے فولاد کی درآمد پر انحصار کم کر کے خزانے کو بے پناہ فائدہ پہنچایا بلکہ ملکی ستون کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔اافسوس کہ یہ قیمتی اثاثہ نہ صرف پچھلے کئی سالوں سے خسارے میں جانے کے بعد 3 سال سے بند پڑا تھا۔ کوئی پرسان حال نہیں تھا ۔آخر کیوں؟ کسی نے بھی جاننے کی کوشش تک نہیں کی کہ اسٹیل مل بند ہے تو اسے دوبارہ بحال کیسے کیا جائے۔ ہندوستان میں نہرو کے زمانے میں اسٹیل مل کی قدر و قیمت تسلیم کیے جانے کے بعد اسے بہت توجہ ملی ر آج پڑوسی ملک میں 21 اسٹیل ملیں کام کررہی ہیں جو ناصرف صنعتوں کو فولاد مہیا کر رہی ہیں بلکہ دفاعی ساز و سامان بنانے میں بھی بہت بڑا کردار ادا کرنے میں مصروف ہیں۔
نیب حکومت کے کہنے پر اسٹیل مل کے بارے میں تفتیش شروع کی گئی لیکن نوکر شاہی نے تعاون کے بجائے راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور مجبور ہوکر نیب کو اپنی تحقیقات بند کرنی پڑی۔ یہ ایک سانحہ تھا۔مسلسل تنقید سے بچنے کی خاطر نیب لاہور کو قوم کے سامنے کچھ حقائق رکھنا پڑے۔ ادارے کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے اعداد و شمار پیش کئے جانے سے پہلے افسوس کا اظہار کیا کہ نیب جو کہ شب و روز لوٹ کھسوٹ کا قلع قمع کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا۔ اسے تنقید کا سامنا ہے۔ کل تک جو لوگ 70 سی سی کی موٹر سائیکل رکھتے تھے آج دبئی میں ٹاور کے مالک ہیں۔ اگر ان سے پوچھا گیا کہ آخر یہ بلند و بالا ٹاور کیسے بنائے تو جواب نہ دے پائے۔
اپنی سالانہ رپورٹ کے مطابق نیب لاہور نے صرف اس سال 2 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروائے۔ 204 سفید پوش لوگوں کو جو معاشرے میں اپنے کالے کرتوتوں کے باوجود احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے کو گرفتار کیا ان میں پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف، وزیراعظم کے سابق پرسنل سیکرٹری فواد حسن فواد، سابق قومی اسمبلی کے ممبر راج قمر الاسلام ، پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلرمجاہد کامران جیسے اہم افراد شامل ہیں۔ دوسرے ذرائع سے نیب نے 5 ارب روپے سفید پوش جرائم پیشہ افراد سے نکلوائے۔ 34 نئے کیسز کھولے گئے اور 50 مقدمات احتساب عدالتوں میں پیش کردیئے گئے۔ نیب نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز، ان کے شوہر کیپٹن صفدر کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ مقدمے میں رہائی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی۔ اب جبکہ یہ رقوم لکھی جارہی تھی ریلوے کے سابق وزیر خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کی ضمانت منسوخ ہونے کے فوری بعد گرفتار کرلیا گیا۔ ساتھ ہین لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب کے خلاف بھی تفتیش شروع کردی۔نواز شریف کے خلاف بہت ہی اہم مقدمہ العزیزیہ ملز کا فیصلہ 24 دسمبر کو سنایا جائے گا تو کیا نیب واقعی نا اہل ہے۔ اس سوال کا جواب تو ملنا چاہیے۔