عجب بات ہے کہ مرغیوں اور انڈوں کے ذریعے امیر ترین بننے کا خواب شیخ چلی نے بھی دیکھا تھا،ویسے مرغی انڈوں کے کاروبار میں کرپشن کے بغیر بھی اچھی آمدنی اور منافع ہے
صبیحہ خان۔ کینیڈا
اس بات پر آج تک اتفاق نہیں ہوسکا کہ دنیا میں پہلا انڈا آیا تھا یا مرغی۔ اس پر کوئی ایک رائے نہیں۔ کوئی مرغی کہتا ہے تو کوئی انڈا ۔ اس کے باوجود مرغی انڈوں کی اہمیت اور افادیت میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ مغلیہ دور کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر اپنی اسیری کے ایام میں صرف ایک کھانے کی فرمائش کی اجازت د ی گئی تب انہوں نے صرف چنے کی دال کو اولیت دی۔ وجہ یہ تھی کہ چنے کی دال اپنے اندر تمام ورائٹی اور ذائقہ رکھتی ہے۔ بہادر شاہ ظفر موجودہ دور میں ہوتے تو وہ مرغی کا انتخاب کرتے کہ مرغی سے بنے کھانوں کی ڈھیروں ڈشیں بنائی جاتی ہیں۔ مہنگائی اور گرانی کی لہر نے مرغی اور دال کو ایک ہی مقام پر کھڑا کردیا ہے ۔ دالیں مرغی سے بازی لے گئیں مہنگی ہونے پر۔ پہلے غریب مجبوراً دال کھاتا تھا اب مرغی۔ مرغی بہت زیادہ ان ہے،جس کسی سے پوچھو کہ آج کھانے میں کیاہے ،جواب ملتا ہے مرغی۔ ہر کوکنگ شو میں شیف مرغی پر ہی طبع آزمائی کرتے نظر آ تے ہیں۔ مرغ تکہ، مرغ کڑاہی، مرغ مسلم، مرغ قورمہ، مرغ بریانی، مرغ تندوری، اچاری مرغ، بٹر کچن شاشلک، وغیرہ۔ غرض ہر طرح کی ڈشیں جن کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ مرغی کے پکوڑے، سموسے، گویا ہر چیز میں مرغی صاحبہ کا ہونا لازم ہوگیا اور تو اور گھر کی دال میں بھی مرغی کا کیوب ڈال کر مرغی کا مزہ لیتے ہیں۔ مرغی دال برابر والا محاورہ فٹ ہوگیا۔موجودہ نسل اب بکرے کے گوشت سے زیادہ مرغی کا گوشت پسند کرتی ہے ۔ فاسٹ فوڈ کی وجہ سے مرغی کی پبلسٹی زیادہ ہوتی ہے۔
ایک وقت تھا جب فارمی مرغیاں نہیں ہوتی تھیں ، دیسی مرغیاں ہی ہوا کرتی تھیں۔ لوگ تازہ چیزیں کھاتے تھے ۔ انڈے بھی گھر کی پالتو مرغیوں کے ہوتے تھے۔ زیادہ تر دالیں، سبزیاں یا بکرے گائے کے گوشت کو غذا کا حصہ بنایا جاتا تھا۔ مرغی انڈوں کا استعمال خاص مواقع پر ہوتا۔ کسی خاص مہمان کی آمد پر خصوصی پروٹوکول مرغ چرغے کھل کر دیا جاتا تھا۔ گاﺅں دیہات میں زمیندار سرکاری مہمانوں ، پولیس وغیرہ کی خاطر تواضع مرغ سے کرکے ایک طرح سے پیشگی رشوت پیش کردیا کرتے تھے۔ اس امید پر کہ کل کلاں کو کسی معاملے میں پھنس گئے تو یہ پولیس والے کم ازکم نمک حلالی یا مرغ حلالی کرتے ہوئے گلو خلاصی کروا دیں گے۔ دیسی مرغیاں گاﺅں دیہات میں پالی جاتی تھیں۔ شہروں میں بھی شوقیہ مرغیاں پال لیا کرتے تھے ۔ تازہ انڈوں سے ناشدہ ہوتا تھا ۔ مرغی چور بھی ہر گلی محلے میں پائے جاتے تھے۔ موقع ملتے ہی دانہ جگتی مرغی کو ا لے اڑتے ، پھر دوستوں کے ساتھ مل کر دعوت اڑاتے ۔ پڑوسیوں کی آپس میں ایک عدد جنگ مقوی مرغی کیوجہ سے ہوتی تھی۔ جب سے فارمی مرغیوں کی یلغار ہوئی ہے دیسی مرغیاں اقلیت میں آگئی ہیں۔ اب یہ صرف حکیمانہ علاج کیلئے استعمال کی جاتی ہیں۔ موٹی تازہ صحت مند فارمی مرغیوں کے مقابلے میں دیسی مرغی کمزور ، ناتواں لگتی ہے ۔ چھوٹے انے الگ ہی دکھائی دیتے ہیں ۔ بہت سے لوگ اب بھی دیسی مرغی کے مزے اور لذت کو یاد رکھے ہوئے ہیں۔
مرغی انڈوں کا کاروبار منافع بخش ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ دنیا کے امیر ترین انسان مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے بھی مرغیوں کے ذریعے غربت میں کمی پر با ت کی تھی۔ عملی قدم اٹھاتے ہوئے ضرورت مندوں میں ایک لاکھ مرغیوں کا عطیہ دیکر ان کی غربت دور کرکے انہیںاپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا موقع دیا کہ مرغیاں پالنے میں نفع کی شرح کسی بھی سرمایہ کاری سے زیادہ ہے۔
اب وزیراعظم پاکستان عمران خان نے مرغیوں اور انڈوں کے ذریعے معیشت کی بہتری کی اپنی تجویز پر تنقید کے جواب میں بل گیٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر دیسی لوگ مرغی کے ذریعے غربت کے خاتمے کی بات کریں تو غلامانہ ذہنیت والے مذاق اڑاتے ہیں لیکن جب مغرب یہی بات کرے تو شاندار کہلاتا ہے۔ اپوزیشن کا حکومتی ہر اقدام کو مذاق اور تنقید کرنے کا مقصد حوصلہ شکنی اور حکو مت کو ناکام ثابت کرنے کے حربے ہیں۔ حیرت یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کو آخر مرغیوں اور انڈوں سے کیا اختلاف ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی اپنی زندگی انڈوں مرغیوں کے بغیر ادھوری لگتی ہے۔ مرغے چرغے اور انڈوں کے حلوے مانڈے ، ناشتے میں اگر انڈے نہ ہوں تو ان کی صبح نہیں ہوتی۔ ان کے اپنے پولٹری فارم کے وسیع کاروبار ہیں۔ ویسے مرغی انڈوں کے کاروبار میں کرپشن کے بغیر بھی اچھی آمدنی اور منافع بھی ہے۔ بس یہ احتیاط رہے کہ یہ کاروبار سرکاری سطح پر نہ ہو ورنہ اس میں بھی کرپشن پر غور شروع ہوسکتا ہے۔ دیکھئے نا! اتنی فارغ ہے قوم ہماری کہ24 گھنٹے ہو؟ئے انڈوں مرغیوں کا ذکر کرتے اور میڈیا فارغ کو مواد مل گیا ۔سارے دن کا اور ٹک شوز میں مخالفین اور حکومتی ارکان کو بٹھا کر بحث مباحثہ کراتے رہے۔ سوشل میڈیا پر بہت تنقید اور بے مقصد باتیں کی گئی حتیٰ کہ لوگوں نے اسے مرغی معیشت اور انڈا اکانومی کا بھی نام دے ڈالا۔ مرغیاں پالو اور غربت مٹاﺅ ، بل گٹس کا منصوبہ کہ وہ غریب ملکوں میں لاکھوں مرغیاں باٹنے کا ارادہ کررہے ہیں آجکل اکثر تصاویر میں بل گیٹس کو ہاتھوں میں مرغیاں دیکھ سکتے ہیں۔ غریب لوگوں کے خواب مرغیوں اور انڈوں کے کاروبار سے پورے کروانا چاہتے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ مرغیوں اور انڈوں کے ذریعے امیر ترین بننے کا خواب شیخ چلی نے بھی دیکھا تھا۔ جب ایک مرتبہ راستہ چلتے ان کو مرغی کے چند انڈے مل گئے تو ان کو اپنی ٹوکری میں رکھ کر گھر جاتے ہوئے ساری پلاننگ کرلی اور خواب دیکھنے لگے کہ ان انڈوں کو روئی میں رکھ دیں گے۔اس میں سے چوزے نکلیں گے جو پھر مرغے اور مرغیاں بن جائیں گے ان سے مزید انڈے ملیں گے ۔ مرغیوں میں اضافہ ہوگا وہ اس سے کاروبار کریں گے۔ آہستہ آہستہ اس کی آمدنی اتنی ہوگی کہ وہ بکریاں، گائے بھینسیں بھی خرید کر دودھ دہی کا کاروبار بھی کریں گے ۔ یوں گھر جاتے ہوئے وہ لکھ پتی بن گئے مگر پھر انہیں ٹھوکر لگی۔ شیخ چلی اور ساتھ ہی ان کے خواب انڈوں سمیت ٹوٹ گئے مگر بل گیٹس جیسے انسان خواب کو حقیقت بنانا جانتے ہیںاسلئے ان کا یہ پلان مفید ثابت ہوگا۔ غریب لوگوں کی غربت دور ہوگی۔ وہ عزت اور خوشحالی کی زندگی گزار سکیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭