دادا پولیس میں تھے، والد فوج میں اور نوجوانی میں خود بھی فوج میں رہے۔ خواہش گلوکار کے طور پر اپنی شناخت بنانے کی تھی تو ممبئی کی مہا فلم نگری کا رُخ کیا مگر زندگی نے اُن کے لیے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔ اس نوجوان نے ایسے رومانی نغمے لکھے جو تین نسلوں کے پسندیدہ قرار پائے۔
یہ کہانی ہے راولپنڈی کے آنند بخشی کی۔ اس شہر نے بالی وڈ کو دو اور اہم نغمہ نگار دیے جن میں ایک شیلندر اور دوسرے دیو کوہلی ہے۔ شیلندر تو اُس وقت تک بالی وڈ کے مصروف ترین گیت نگار بن چکے تھے جب آنند بخشی نے فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ دیو کوہلی مگر آنند بخشی کے بعد بالی وڈ میں آئے۔
یہ بے مثل شاعر 21 جولائی 1930کو غیرمنقسم ہندوستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ نام تو تھا آنند پرکاش مگر گھر میں سب نند یا نندو کہہ کر بلایا کرتے۔ بخشی خاندان کے نام کا حصہ تھا تو یوں وہ جب فلمی دنیا میں آئے تو آنند بخشی کے نام سے معروف ہوئے۔
مزید پڑھیں
-
دیو آنند کا لاہور سے رومانس: ’سرحد کہاں ہے؟ دشمنی کہاں ہے؟‘Node ID: 798636
-
گرو دت کی فلم ’پیاسا‘ جسے ٹھکرانے کا دلیپ کمار کو ملال رہاNode ID: 886107
بخشی بھی راولپنڈی کے اُن خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے تقسیم کے دوران اپنا سب کچھ گنوا دیا تھا اور ہجرت کے بعد ایک نئے اور اجنبی شہر میں نئے سرے سے زندگی کا آغاز کیا تھا۔
بخشی کے تخلیقی جوہر اوائل عمری میں ہی ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے۔ تب سینما ایک نیا اور اُبھرتا ہوا میڈیم تھا۔
آنند بخشی نے فلم فیئر میگزین کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ایسا وقت بھی آیا جب میں فلم دیکھنے کے لیے اپنی کتابیں بیچ دیا کرتا تھا۔ میرے والدین مجھے ڈانٹتے، مگر میں باز نہ آتا۔ میرا خواب تھا کہ بمبئی جاؤں اور فلمی دنیا میں کچھ کروں، مجھے اگرچہ خود بھی معلوم نہیں تھا کہ کیا؟‘
یہ بخشی کی موسیقی میں فطری دلچسپی تھی جس کے باعث وہ اپنے دوستوں میں منفرد نظر آتے۔ وہ انہیں فلمی نغمے، پنجابی لوک گیت اور غزلیں گا کر محظوظ کیا کرتے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بخشی ایک بلند پایہ نغمہ نگار تو بن گئے مگر وہ مڈل تک ہی تعلیم حاصل کر سکے تھے۔
انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’حالات ایسے تھے کہ مجھے تعلیمی سلسلہ ادھورا چھوڑنا پڑا۔ میں نے گیت لکھنے کی کوئی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی۔‘
دو سے تین سال فوج میں خدمات انجام دینے کے بعد، بخشی نے سب کچھ چھوڑ کر سال 1952 میں بمبئی کا رخ کیا۔ تین سال کی ناکام جدوجہد کے بعد، مایوس ہو کر وہ اپنی پرانی نوکری یعنی فوج میں واپس چلے گئے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’مگر میں بے چین تھا۔تین سال بعد میں ایک بار پھر بمبئی آ گیا۔ تب تک میری شادی ہو چکی تھی اور ایک بیٹی بھی تھی۔ میری بیوی اور والدین سمجھتے تھے کہ میں وقت ضائع کر رہا ہوں۔ وہ مجھے خواب دیکھنا چھوڑنے اور نوکری پر توجہ دینے کا کہتے، مگر میں ضدی ثابت ہوا۔‘
بخشی نے بمبئی میں پھر سے جدوجہد شروع کی، لوگوں سے ملاقاتیں کیں، ایک سٹوڈیو سے دوسرے سٹوڈیو کے چکر کاٹتے رہے۔ مزید مشکل یہ ہوئی کہ تین مہینے میں ان کی جمع پونجی بھی ختم ہو گئی۔ انہوں نے اس بارے میں فلم فیئر میگزین سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مجھے بالکل سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ گھر واپس جانے کا سوچا، مگر شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ گھر والے کیا کہیں گے؟‘
مگر اُن پر جلد ہی قسمت مہربان ہوئی۔ بخشی کو خبر ملی کہ لیجینڈ کامیڈین بھگوان دادا فلم ’بھلا آدمی‘ بنا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’میں دادر میں ان کے دفتر گیا اور کہا کہ میں ایک گیت نگار ہوں۔ انہوں نے فوراً مجھے چار گانے لکھنے کو کہا۔ مجھے ان گانوں کے 150 روپے ملے، جو ان دنوں ایک بڑی رقم تھی۔‘ اس فلم کے گیت ’دھرتی کے لال نہ کر اتنا ملال‘ کو سراہا تو گیا مگر معاملہ اب بھی ’دلی ہنوز دوست اَست‘ والا تھا۔
اُن دنوں ہی جب وہ کسی اہم موسیقار کے ساتھ کام کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے تو اُن کو موسیقار روشن سے ملاقات کا وقت مل گیا۔ مگر اُن کو جس روز ملاقات کے لیے جانا تھا، اس رات شدید بارش ہوئی اور نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔
ڈیجیٹل نیوز ویب سائٹ ’سکرول‘ اپنے ایک مضمون میں اس واقعے کو کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ ’یہ صبح 10 بجے کا وقت تھا۔ روشن، ہندی فلمی دنیا کے ایک قابلِ احترام موسیقار تھے، انہوں نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا تو سامنے ایک خستہ حال نوجوان کھڑا تھا۔ وہ سر سے پاؤں تک بھیگا ہوا تھا، اس کی چھتری ٹوٹی ہوئی تھی اور چپلیں پھٹی ہوئی تھیں۔ وہ حقیقت میں ایک پریشان کن منظر پیش کر رہا تھا۔
موسیقار نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے پوچھ ہی لیا، ’بخشی، تم آدمی ہو یا بھوت؟‘
انہوں نے نوجوان سے استفسار کیا کہ وہ اتنی شدید بارش اور پانی سے بھری سڑکوں کے باوجود یہاں کیوں آیا؟ اس پر نوجوان نے جواب دیا، ’آپ نے مجھے 10 بجے یہاں آنے کو کہا تھا تاکہ آپ میری نظمیں سن سکیں۔‘
’ہاں، میں نے تمہیں بلایا تو تھا، مگر یہ اتنا ضروری بھی نہیں تھا۔‘
’سر، آپ کے لیے شاید یہ ضروری نہ ہو، مگر میرے لیے آپ کو اپنی نظمیں سنانا بہت ضروری ہے۔‘

موسیقار حیران تھے مگر انہوں نے نوجوان کو گھر کے اندر بلا لیا۔ روشن کو معلوم ہوا کہ نوجوان بوری والی بمبئی کے ایک مضافاتی علاقے سے صبح 6 بجے نکلا تھا اور بس اور ٹرین سروس معطل ہونے کی وجہ سے 19 کلومیٹر پیدل بارش میں بھیگتا سانتا کروز میں اُن کے گھر پہنچا تھا۔ اس کے ہاتھ میں اس کی نظموں کی کتاب تھی، جو اس نے ایک تولیے میں لپیٹ رکھی تھی اور اب وہ ٹوٹی ہوئی چھتری کے نیچے محفوظ تھی۔
روشن نے نوجوان کے جذبے سے متاثر ہو کر اسے اپنی آنے والی فلم کے لیے منتخب کر لیا۔ یوں نوجوان بخشی مشہور موسیقار روشن کے ساتھ کام کرنے لگے۔ فلم ’سی آئی ڈی گرل‘ (1959) ایسی پہلی فلم تھی جس کا بخشی کو شدت سے انتظار تھا کیوں کہ کئی مہینوں تک ہدایت کاروں، موسیقاروں اور پروڈیوسروں کے دفاتر کے چکر لگانے کے بعد آخرکار انہیں ایک بڑے موسیقار کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا تھا۔‘
موسیقار روشن گوجرانوالہ کے ایک رئیس خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کے صاحب زادے موسیقار راجیش روشن کے لیے تو بخشی نے گیت لکھے ہی بل کہ روشن کے پوتے ہریتک روشن پر بھی اُن کے گیت پکچرائز ہوئے جس کی ایک مثال فلم ’مجھ سے دوستی کرو گی‘ ہے جس میں ہریتک روشن، رانی مکھرجی اور کرینہ کپور مرکزی کرداروں میں دکھائی دیے تھے۔ اس فلم کے نغمہ نگار آنند بخشی ہی تھے۔
بخشی بہرحال اپنی پہلی فلم کے بعد بھی قریباً ایک دہائی تک جدوجہد کرتے رہے اور بالآخر سال 1965 اُن کے کیریئر میں فیصلہ کن ثابت ہوا جب انہوں نے موسیقاروں کی جوڑی کلیان جی آنند جی کے ساتھ فلم ’ہمالے کی گود میں‘ اور بالخصوص سپرہٹ فلم ’جب جب پھول کھِلے‘ کے لیے گیت ’پردیسیوں سے نہ اکھیاں لڑانا’،’ایک تھا گل اور ایک تھی بلبل،‘ ’نہ نہ کرتے پیار تمہیں سے‘ اور ’یہ سماں سماں ہے پیار کا‘ لکھے جو ایور گرین قرار پائے اور یوں بخشی کو وہ پہچان مل گئی جس کے لیے انہوں نے طویل جدوجہد کی تھی۔

بخشی نے اس کے بعد ’ملن‘، ’دو راستے‘، ’امر پریم‘، ’روٹی‘، ‘میں تلسی تیرے آنگن کی‘، ’سیتا اور گیتا‘، ’انوکھی ادا‘، ’داغ‘، ’میرا گاؤں میرا دیش‘ جیسی کامیاب فلموں کے لیے گیت لکھے اور موسیقاروں کی جوڑی لکشمی کانت پیارے لال اور آر ڈی برمن کے ساتھ کام کیا تو اُن کا شمار بالی وڈ کے صفِ اول کے گیت نگاروں میں کیا جانے لگا۔
انہوں نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل دیے گئے ایک انٹرویو میں یہ اعتراف کیا تھا کہ ’یہاں تک پہنچنے کے لیے انہوں نے انتھک محنت کی۔ یاد رکھیے، ہمارے دور میں ساحر لدھیانوی، شیلندر، حسرت جے پوری، کیفی اعظمی اور مجروح سلطان پوری جیسے عظیم شاعر موجود تھے جب کہ میں تو دسویں جماعت بھی پاس نہیں کر پایا تھا۔ مجھے گانے لکھنے سے ڈر لگتا تھا۔ ظاہر ہے، مجھے اپنی صلاحیت ثابت کرنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑی۔ مگر اس زمانے میں مقابلہ صحت مند تھا۔ ساحر صاحب میری بہت مدد کیا کرتے۔ شیلندر بھی میرا حوصلہ بڑھاتے، لوگوں سے ملواتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار انہوں نے اپنی ایک فلم کے لیے مجھ سے قوالی لکھنے کو کہا تھا۔‘
بخشی نے بطور نغمہ نگار روایت سے کچھ یوں انحراف کیا کہ انہوں نے ساحر کی طرح ادبی اُردو میں شاعری کی نہ شیلندر کی طرح اپنی شاعری میں ہندی کے الفاظ کا زیادہ استعمال کیا بلکہ انہوں نے درمیانی راستہ اختیار کیا اور اپنے گیتوں میں ایسی زبان استعمال کی جو درحقیقت عوام کی زبان تھی۔ انہوں نے شاعری کو عوامی آہنگ دینے کے علاوہ فلمی جوڑیوں کے لیے گیت لکھے جو ایور گرین قرار پائے جیسا کہ اُن کے لکھے گیت ششی کپور اور نندا، راجیش کھنہ اور ممتاز، سنجے دَت اور ٹینا منم، شاہ رُخ خان اور کاجل اور تو اور ہریتک روشن اور کرینہ کپور پر فلم بند ہوئے۔
مختصر لفظوں میں اگر کہا جائے تو یہ اُن کا گیت ’میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو‘ ہو یا ’تجھے دیکھا تو یہ جانا صنم‘ یا پھر ’ہم کو ہمی سے چُرا لو‘ اُن کے طویل فنی سفر کی جھلک دکھلاتے ہیں۔

بخشی کے گیتوں کی ایک اور خوبی ان کا گفتگو کا انداز تھا جیسا کہ اُن کے گیتوں میں سوال جواب ہوتے۔ اُن کا یہ ایورگرین گیت اس کی عمدہ مثال ہے:
اچھا تو ہم چلتے ہیں
پھر کب ملو گے
جب تم کہو گے
جمعرات کو
ہاں ہاں آدھی رات کو
یوں کہہ لیجیے اس گیت میں سوال کے بعد جواب ہے اور جواب کے بعد پھر سوال۔ یہ انداز بخشی کے اور بہت سے گیتوں میں دکھائی دیتا ہے جن پر بات کرنے سے قبل اس گیت کی تخلیق کی کہانی سناتے چلیں۔
کہا جاتا ہے کہ سال 1970 میں جب لکشمی کانت پیارے لال اور بخشی فلم ’آن ملو سجنا‘ کے لیے لاکھ کوششوں کے باوجود گیت تیار نہ کر سکے تو تھک ہار کر بخشی نے کہا کہ ’اچھا تو ہم چلتے ہیں۔‘
جواباً لکشمی کانت بولے، ’پھر کب ملو گے؟‘ بس اس برجستہ جملے بازی سے یہ یادگار گیت تخلیق ہوا۔
سوال جواب کے انداز میں آنند بخشی کا ایک اور یادگار گیت دیکھیے:
’سنو…کہو…کہا…سنا…کچھ ہوا کیا؟
ابھی تو نہیں…‘
ان گیتوں کا ذکر نکلا ہی ہے تو یہ بتاتے چلیں کہ یہ دونوں گیت سپرسٹار راجیش کھنہ پر پکچرائز ہوئے تھے جن کی بہت سی فلموں کے گیت بخشی نے ہی لکھے جیسے کہ ’کچھ تو لوگ کہیں گے‘، ’اس سے پہلے کہ یاد تو آئے‘، ’یہ جو چلمن ہے دشمن ہے ہماری‘ یا ’چنگاڑی کوئی بھڑکے تو ساون اُسے بجھائے، ساون جو اَگن لگائے، اُسے کون بجھائے۔‘ جیسے ایور گرین گیت راجیش کھنہ کی پہچان تو بنے ہی بلکہ انہوں نے بخشی کو بھی بالی وڈ کے نغمہ نگاروں میں منفرد مقام عطا کیا۔

یہ ان دنوں کا ہی ذکر ہے جب اولڈ راوین دیو آنند نے فلم ’ہرے رام ہرے کرشنا‘ بنائی جس کا گیت ’دم مارو دم‘ بالی وڈ کے چند رجحان ساز گیتوں میں شمار کیا جاتا ہے جسے بخشی نے لکھا تھا۔
جریدہ ’فلم کمپینئن‘ لکھتا ہے کہ ’ایک روز آر ڈی برمن نے آنند بخشی کو منفرد انداز سے سگریٹ پیتے دیکھا تو تبصرہ کیا،’ایسا لگ رہا ہے آپ ’دم‘ مار رہے ہیں۔ یوں یہ گیت تیار ہو گیا۔‘
یہ گیت نہیں ہے، یہ پوری ہپی ثقافت کا نمائندہ ہے جس میں بغاوت اور تنہائی کے جذبات اس عمدگی سے اُبھرتے ہیں جس کی کوئی دوسری مثال تلاش کرنا مشکل ہے، یہ بول دیکھیے:
دنیا نے ہم کو دیا کیا
دنیا سے ہم نے لیا کیا
ہم سب کی پروا کریں کیوں
سب نے ہمارا کیا کیا
اس انداز کے پارکھ درحقیقت بخشی ہی تھے۔ اس فلم کے موسیقار عظیم آر ڈی برمن تھے جو اُس تخلیقی تکون کا دوسرا سِرا تھے کیوں کہ تیسرا سرا کشور کمار تھے۔ اس کی مثال فلم ’کٹی پتنگ‘کا گیت ’پیار دیوانہ ہوتا ہے مستانہ ہوتا ہے‘، ہے جس میں بخشی نے ایک بار پھر وہ جادو جگایا جو اُنہی کا خاصہ تھا۔
فلم ’جولی‘ کا ذکر ہو تو اس فلم میں شامل کشور کمار کا گیت ’دِل کیا کرے جب کسی سے کسی کو پیار ہو جائے‘ محبت کرنے والے دلوں کا ترانا بن گیا۔ اس گیت کے بول بھی بخشی نے ہی لکھے تھے اور موسیقار تھے راجیش روشن۔

یہ تو وہ دن تھے جب آنند بخشی کا شمار بالی وڈ کے اہم ترین گیت نگاروں میں ہو رہا تھا مگر ایک وقت وہ تھا جب وہ خود نہیں جانتے تھے کہ اُن کے لکھے گیت عوام میں مقبول ہونے لگے ہیں۔
ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارم ’دی پرنٹ‘ اس حوالے سے اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’آنند بخشی کو اپنے گیتوں کی بے پناہ مقبولیت کا درست طور پر ادراک نہیں تھا، یہاں تک کہ ایک بار، ایک دور دراز گاؤں کے سفر کے دوران، انہوں نے ایک بھکاری کو اپنی تخلیق کردہ دھن گاتے ہوئے سنا۔
بخشی نے کہا تھا کہ ’میں نے جب ایک بھکاری کو اپنا گیت گاتے سنا، جو نہ ریڈیو رکھتا تھا اور نہ ہی اس گاؤں میں بجلی تھی، تب مجھے احساس ہوا کہ میرے گیت واقعی مشہور ہو چکے ہیں۔ وہ بھکاری مجھے نہیں جانتا تھا، مگر اُسے میرے گانے یاد تھے۔‘
عام لوگوں سے ان کی یہی قربت تھی جس نے انہیں’عوامی شاعر‘ کا لقب دلوایا، جب کہ اُن کے معاصر ساحر لدھیانوی، گلزار اور مجروح سلطان پوری جیسے شاعر یہ خطاب حاصل نہیں کر سکے جب کہ اُن کا کام ’اعلیٰ ادب‘ کے زمرے میں آتا تھا۔
بخشی نے گیت نگاری کے علاوہ چند گیت بھی گائے اور یوں اپنے تشنہ خواب کو تعبیر دی۔ انہوں نے فلم ’موم کی گڑیا‘ کے لیے لتا منگیشکر کے ساتھ دوگانا ’باغوں میں بہار آئی‘ گایا۔ اسی طرح فلم ’شعلے‘ کے لیے ایک قوالی بھی گائی جس کے بارے میں انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’بدقسمتی سے اسے فلم سے نکال دیا گیا۔‘

یہ اعزاز شاذ ہی کسی اور گیت نگار کو حاصل ہوا ہے جو بخشی کو حاصل ہوا۔ انہوں نے ایس ڈی برمن اور پھر اُن کے صاحب زادے آر ڈی برمن، روشن اور پھر اُن کے صاحب زادے راجیش روشن، چترگپت اور اُن کے بیٹوں آنند ملند کے ساتھ کام کیا۔
بخشی کبھی اپنی جنم راولپنڈی واپس نہیں آ سکے مگر ان کے گیتوں کی گونج راولپنڈی میں ضرور سنائی دی اور آج بھی سنائی دیتی ہے۔ انہوں نے اپنی جنم بھومی کو یاد کرتے ہوئے ایک نظم بھی کہی تھی جس کے دو اشعار کچھ یوں ہیں:
راستے میں کھڑی ہو گئیں سرحدیں
سرحدوں پر کھڑی بے بسی رہ گئی
یاد پنڈی کی آتی ہے اب کس کے لیے
میری مٹی تھی جہلم میں وہ بہہ گئی
راولپنڈی میں بخشی کا آبائی گھر محلہ قطب الدین، چٹیاں ہٹیاں میں تھا جس سے بالی وڈ کے ایک ایسے شاعر کی یادیں جڑی ہیں جو اس دھرتی کا ہو کر بھی پرایا ہو گیا۔
سال 1947 کے اوآخر میں جب برصغیر دولخت ہوا تو آنند بخشی کے خاندان کو بھی راولپنڈی چھوڑنا پڑا۔ وہ ایک ڈکوٹا ملٹری طیارے کے ذریعے دہلی پہنچے اور وہاں ایک قریبی رشتہ دار کے گھر پناہ لی۔
چند دن بعد، جب وہ صدمے سے باہر آئے تو انہوں نے اپنے سامان کا جائزہ لیا جو وہ عجلت میں راولپنڈی سے ساتھ لائے تھے۔
ان چند اشیا میں، جو نوجوان بخشی بچا کر لا سکے تھے، اُن کی ماں کی ایک تصویر بھی شامل تھی۔ وہ تصویر ان کے لیے بے حد قیمتی تھی، اور جب تک وہ زندہ رہے، وہ تصویر ہمیشہ ان کے پاس رہی۔

سال 1993 میں دی کوئنٹ میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں نغمہ نگار نے کہا تھا کہ ’1960 کی دہائی کے آخر میں جب موسیقار ایس ڈی برمن نے مجھے شکتی سامنت کی فلم ’ارادھنا‘ کے ایک منظر کی وضاحت کی اور اس کے لیے گانا لکھنے کو کہا، تو میں نے تین دن بعد انہیں گیت لکھ کر دکھایا۔ برمن یہ دیکھ کر خوشی سے حیران رہ گئے اور پوچھا:
’تم نے اتنا شاندار گیت کیسے لکھا؟‘
اس پر انہوں نے جواب دیا، ’دادا، میری ماں کا انتقال اس وقت ہوا جب میں بہت چھوٹا تھا۔ میں نے جب یہ گانا لکھا تو میں نے ان کے بارے میں سوچا۔‘
آنند بخشی کو ریکارڈ 41 بار بہترین نغمہ نگار کے فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا اور وہ چار بار یہ ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اُن کو پہلی بار سال 1968 میں بہترین نغمہ نگار کے لیے فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا مگر وہ اپنا پہلا ایوارڈ 1979 میں فلم ’اپنا پن‘ پر حاصل کرنے میں کامیاب رہے جب کہ انہوں نے اپنا آخری فلم فیئر ایوارڈ گیت ’تال سے تال ملا‘ پر حاصل کیا جس کی موسیقی اے آر رحمان نے ترتیب دی تھی۔
یوں انہوں نے چار دہائیوں تک خود کو تبدیل ہوتے ہوئے رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ رکھا۔ اس دوران اگرچہ اُن کے کچھ گیتوں کی شاعری کے ذومعنی الفاظ پر اعتراضات بھی ہوئے جن میں فلم ’کھل نائیک‘ کا ایک مقبولِ عام گیت بھی شامل ہے مگر ان چند گیتوں سے قطع نظر ان کے زیادہ گیت ایسے ہیں جو جذبات و احساسات سے بھرپور ہونے کے علاوہ امید کی جوت جگائے رکھتے ہیں جیسے کہ انہوں نے وفات سے کچھ عرصہ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میں دل سے آج بھی جواں ہوں۔ میں لکھنے سے کبھی نہیں تھکتا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں رومانی گانے کیسے مسلسل لکھتا رہتا ہوں۔ ارے بھائی، لکھنا میرے لیے سانس لینے جیسا ہے، یہ فطری طور پر مجھ سے جُڑا ہوا ہے۔‘
