Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جزیروں کے ملک انڈونیشیا میں4 روز(دوسری قسط)

جمعیت محمدیہ کے سربراہ ڈاکٹر حیدر ناصر ہیں، اس جماعت کا مقصد لوگوں میں کتاب و سنت کے مطابق اسلام کا شعور بیدار کرنا اور شرک و بدعت سے روکنا تھا
***عبدالمالک مجاہد۔ریاض***
میرے آج کے پروگرام میں جمعیۃ محمدیہ کے صدر دفتر اور ان کے ذمہ داران سے ملنا تھا۔ میں مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر جناب پروفیسر ساجد میر صاحب کی طرف سے ان کے لیے شیلڈ بھی لے کر آیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ آج میںان سے مختصر سی ملاقات کروں گا اپنا تعارف کرواؤں گا اور شیلڈ اگلے دن پیش کروں گا۔
مسجد استقلال سے جمعیۃ محمدیہ کا صدر دفتر زیادہ دور نہ تھا۔ کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد ہم ایک خوبصورت بلڈنگ کی پارکنگ میں گاڑی لگا رہے تھے۔ خوش قسمتی سے دروازے پر ہی تعلقات عامہ کے ایک ذمہ دار جناب زین العابدین سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے تعارف کروایا تو بڑی خوشی سے ملے۔ ہم استقبالیہ میں ہی بیٹھ گئے۔ میں کافی عرصہ سے محمدیہ سے متعارف ہوں ۔ میں کوئی بیس سال پہلے جکارتہ آیا تو جمعیۃ محمدیہ کے ذمہ داران سے ملاقات کی تھی۔ مگر اس زمانے میں ان کا کام اتنا زیادہ وسیع نہ تھا۔ محمدیہ نے اس دوران بے حد ترقی کر لی ہے۔
قارئین کرام!چلئے ہم تھوڑی دیر کے لیے جمعیۃ محمدیہ کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرتے ہیں کوئی سوا سو سال پہلے کی بات ہے کہ جکارتہ سے احمد دحلان نامی ایک شخص مکہ مکرمہ حج کے لیے آتا ہے انہوں نے مکہ مکرمہ کے علماء سے علم حاصل کیا۔ ایک مدت وہاں گزار کر وہ انڈونیشیا واپس جاتے ہیں۔ اس زمانے میںآل سعود کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ محمد بن عبدالوہاب کی دعوت سعودی عرب میں پھیل چکی تھی۔ شیخ احمد دحلان جب انڈونیشیا واپس گئے تو اپنے ساتھ عقیدہ توحید اور سنت نبوی کی دعوت ان کے ہمراہ تھی۔ شیخ احمد دحلان کے گاؤں کا نام کاومان تھا اور انڈونیشیا کے ایک ضلع یوکیا کرتا میں واقع تھا۔ پیشے کے اعتبار سے تاجر تھے انہوں نے اپنے گاؤں کی مسجد کی خطابت سے دعوت کا کام شروع کر دیا۔ وہ لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے، بدعات و خرافات سے ڈراتے،اخلاق کی تعلیم دیتے۔ جیسا کہ عموماً ہر مصلح کے ساتھ ہوتا ہے۔ لوگوں نے شروع میں ان کی شدید مخالفت کی۔ ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ خوب ستایا گیا۔ شیخ احمد دحلان نے اپنے گھر کو ہی دعوت کا مرکز بنایا۔ ساتھ ساتھ تجارت بھی جاری رہی۔ لوگوں کے سامنے اپنی ذات کے لیے کبھی سوال نہ کیا۔ نہایت موثر خطیب تھے، دلیل سے بات کرتے۔ قرآن و حدیث پر عبور تھا۔ اس لیے تمام تر رکاوٹوں کے باوجود وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ ایک اچھے داعی کی صفات میں صبر و تحمل کی صفت نمایاں ہوتی ہیں۔ ان کو ستایا گیا مگر انہوں نے صبر کیا۔ دعوت کا سلسلہ چلتا رہا۔ وہ دن بھی آیا کہ ارد گرد کچھ لوگ اکٹھے ہو گئے۔ ضرورت محسوس ہوئی کہ کام کو آگے بڑھانے کے لیے ایک جمعیت بنائی جائے۔ 18نومبر1912وہ مبارک دن تھا جب جمعیت محمدیہ کی تاسیس ہوتی ہے۔ شیخ احمد دحلان اس کے پہلے امیر منتخب ہوتے ہیں۔ آج کل اس تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر حیدر ناصر ہیں۔ اس جماعت کا مقصد لوگوں میں کتاب و سنت کے مطابق اسلام کا شعور بیدار کرنا اور شرک و بدعت سے روکنا مقصود تھا۔ جب نیت میں اخلاص ہو انسان کوشش اور محنت کرے تو ایک دن آتا ہے کہ اس کے نتائج دور دور تک پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ ایک سو سال گزرنے کے بعد محمدیہ انڈونیشیا کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے ۔ ایسا کوئی شہر ، قصبہ یا بستی نہیں جس میں الحمدللہ محمدیہ کا دفتر موجود نہ ہو۔
قارئین کرام اگر آپ ان کے کاموں کی فہرست پر نظر دوڑائیں تو آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ حکومتی سرپرستی کے بغیر کوئی تنظیم اتنے بڑے کام کر سکتی ہے۔
اگر کسی جماعت نے عقیدہ کو راسخ کرنا ہے تو اسے تعلیم پر بھر پور توجہ دینا ہو گی۔ محمدیہ نے سب سے زیادہ توجہ تعلیم و تربیت پر دی ہے۔ ملک بھر میں کنڈر گارڈن اسکولوں کی تعداد 4623ہے پرائمری اسکول 2252، ہائی اسکول 1111، کالج 1291، اسلامی انسٹیٹیوٹ 67، یونیورسٹی تک تعلیم کے مراکز171، مستشفیات 2119، یتیموں کے لیے 318گھر ، اولڈ ھوم 54، اپاہج لوگوں کے لیے مراکز82، اپاہج لوگوںکے لیے اسکول71،جامع مساجد کی تعداد 6118اور چھوٹی مساجد کی تعداد 5080ہے۔
قارئین کرام اگر میں وہاں کے دینی اداروں کے بارے میں مزید تفصیل میں جاؤں تو ممکن ہے کہ یہ مضمون بہت ہی لمبا ہو جائے اور قارئین کی دلچسپی بھی ختم ہو جائے۔ میں نے استاذ زین العابدین سے بلڈنگ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ گراؤنڈ فلور پر بڑا ہی خوبصورت ہال تھا۔ ہم اس میں داخل ہوئے تو میں اس کی خوبصورتی میں محو ہو گیا۔ میری اہلیہ الحمدللہ داعیہ ہے۔ قرآن کریم کی حافظہ ہے آج سے 35سال پہلے اس نے جھوک داؤد پاکستان سے فراغت حاصل کی تھی۔ اسے بھی دینی اداروں کو دیکھنے کا بڑا شوق ہے۔ میں نے زین العابدین کی اجازت سے اسے بھی بلوا لیا۔ یہ کئی منزلہ عمارت ہے۔ جس میں محمدیہ کے بہت سارے دفاتر ہیں۔ ہم ایک ایک فلور پر گئے۔ ایک منزل پر کھیلنے اور تفریح کا مکمل سامان موجود تھا۔ ٹینس کھیلنے کے لیے باقاعدہ کورٹ بنی ہوئی تھی۔ سوشل میڈیا سیل میں دن رات کام ہوتا ہے ان کا اپنا سیٹلائٹ چینل تو نہیں مگر وہ سوشل میڈیا پر بڑے فعال نظر آئے۔ زین العابدین نے ایک نوجوان کے بارے میں بتایا کہ یہ تو دفتر سے گھر جاتا ہی نہیں ۔ جب دیکھو دفتر میں بیٹھا کام کر رہا ہوتاہے۔ میں نے اس نوجوان کو تھپکی دی۔ اس کے ساتھ فوٹو بنایا اور آگے چل دیا۔ دفتروں میں خواتین بھی کام کر رہی تھیں۔ غالباً ایک ڈاکٹر خاتون نے اہلیہ کا ہاتھ تھام لیا اور اپنے دفاتر دکھانے لے گئی۔ میری آمد کا سن کر تعلقات عامہ کے مؤلفین جمع ہو گئے میں نے انہیں مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کا تعارف کروایا۔ اس کے مسائل سنے اپنے سنائے۔ ان میں بیشتر لوگ عربی جانتے تھے۔ جس کو سمجھ نہ آتی زین العابدین یا عبدالغفار ترجمہ کر دیتے ۔ میں نے اپنے اس سفر میں جس کسی سے محمدیہ کے بارے میں سوال کیا تو اس نے ان کی تعریف ہی کی۔ بطور خاص تعلیم کے میدان میں ان کی کارکردگی قابل تعریف ہے۔ ہم خاصی دیر مذاکرات کرتے رہے۔ کچھ تحائف کا تبادلہ ہوا۔ میری واپسی تین دن بعد پیر کی شام کو تھی چنانچہ طے ہوا کہ میں پیر کے روز ان سے دوبارہ ملنے کے لیے آؤں گا۔ اچھی اور خوشگوار یادیں لے کر ہم اپنی گاڑی میں بیٹھ کر عبدالغفار کے ادارے دارالماھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستہ میں عبدالغفار نے ایک شاندار ریسٹورنٹ کے سامنے گاڑی روکی۔ میرے احتجاج کے باوجود کہ ہمیں ابھی خاص بھوک نہیں مگر اس کا کہنا تھا کہ لنچ کا وقت ہے۔ یہاں بعض ریسٹورنٹ میں آپ کھانے کے لیے جائیں تو آپ کے سامنے چھوٹی چھوٹی پلیٹوں میں ہر قسم کے کھانے چن دیں گے۔ ہمارے سامنے بھی بائیس ڈشوں میںکھانا رکھ دیا گیا۔ پلیٹ پر شفاف پلاسٹک ہوتا ہے۔ جس کھانے کو آپ کھائیں گے اس کے پیسے ادا کر دیں گے۔ انڈونیشن کھانے بڑے مزیدار ہیں۔ بعض میں مرچ مصالحہ خوب ہوتا ہے۔ کھانے میں کئی قسم کی مچھلی شامل تھی ۔ البتہ چاول ابلے ہوئے تھے۔ ہم نے کوئی تیرہ ڈشوں کو کام و دھن کی لذت سے آشنا کیا۔ عبدالغفار سے میں نے اصرار کر کے بلکہ بڑے اچھے طریقے سے پوچھ ہی لیا کہ کھانے کا بل کتنا ہے تو وہ سو ریال سے کم ہی تھا۔ اس لیے مجھے اطمینان ہوا کہ خرچ بہت زیادہ اور انڈونیشیا بہت مہنگا نہیں۔
میں دارالماھر کو دیکھنے کا خواہش مند تھا ۔ ہمارے میزبان نے گاڑی کو کئی جگہ موڑا کئی جگہ سیدھا دوڑایا کبھی امیروں کے علاقے سے کبھی غریبوں کے علاقے سے گزرے ، کئی جگہ مجھے محسوس ہوا کہ ہم لاہور کے کسی محلے سے گزر رہے ہیں۔ بعض جگہ ٹریفک کے ہجوم میں گاڑی پھنسی ۔ بارش کا ٹھہرا پانی بھی نظر آیا۔ فروٹ بیچتے ہوئے بچے بھی نظروں سے گزرے۔ دنیا گول ہے۔ پوری دنیا میں ایک طرح کے معاملات چلتے ہیں اس دنیا میں کوئی غریب ہے تو کوئی امیر، اللہ رب العزت کی عطا ہے۔ میرے نزدیک فقیر اور غریب وہ ہے جو محنت کا خوگر نہیں۔ جو تعلیم حاصل نہیں کر سکا اور نہ ہی اس کا شوق رکھتا ہے۔
گاڑی ایک علاقے میں گزر رہی تھی کہ عبدالغفار کہنے لگے کہ بس ہمارا دفتر اب قریب ہی ہے۔ ایک اور چرچ نظر آیا۔ عبدالغفار کہنے لگا کہ ہمارا دفتر دو چرچوں کے درمیان ہے۔ ایک ہی گلی میں دو چرچ ، جی ہاں جس طرح مسلمانوں میں فرقے ہیں اس طرح عیسائیوں میں بھی گروہ اور فرقے ہیں۔ ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے فرقے، ایک دوسرے کو کافر کہنے والے گروہ بھی ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان ہی آپس میں لڑتے ہیں۔ دارالماھر کا دفتر کم و بیش دو کنال کے رقبہ پر پھیلا ہوا تھا۔ عبدالغفار نے پارکنگ میں گاڑی کھڑی کی اور ہمیں لے کر اندر داخل ہوا۔ شروع میں تحفیظ القرآن کی کلاسز تھیں۔ بچیاں قرآن پڑھ رہی تھیں ۔ متعدد کمروں سے گزرنے کے بعد ہم ریسرچ سیکشن میں داخل ہوئے ۔ خاصا بڑا ہال جس میں متعدد مؤلف اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ عبدالغفار کی اہلیہ کو ہماری آمد کی خبر مل چکی تھی اور وہ میری اہلیہ کے استقبال کے لیے آگے بڑھی اس نے روایتی انداز میں اہلیہ کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے۔ اہلیہ نے اسے گلے لگا لیا۔ اتنے میں عبدالغفار کی دو چھوٹی پیاری بچیاں آگے بڑھیں، ہمیں سلام کیا۔ اہلیہ نے ان کے سروں پر ہاتھ رکھ دیا۔ عبدالغفار کی اہلیہ اب ہماری خدمت میں لگ گئی۔ اس کے بس میں ہوتا تو وہ ہر چیز ہمارے سامنے رکھ دیتی ہم کھانا کھا چکے تھے اس لیے گرین چائے پر ہی اکتفا کیا، عبدالغفار کی اہلیہ نے ہمیں تحائف پیش کیے۔ نماز پڑھتے وقت انڈونیشی ایک خاص لباس پہنتی ہیں جو بڑا ساتر ہوتا ہے۔
میں نے عبدالغفار کے دفتر میں صحاح ستہ کو دیکھا۔ آٹھ جلدوں میں یہ نسخہ واقعی بڑا خوبصورت تھا۔ عربی زبان میں احادیث اور پھر ان کا انڈونیشی زبان میں ترجمہ، کیا عمدہ اور لا جواب کام ہوا ہے۔ بخاری شریف دو جلدوں میں مسلم شریف دو جلدوں اور باقی چار کتابیں ابوداؤد، ترمذی نسائی ، ابن ماجہ ایک ایک جلد میں تھیں۔ کتابوں کا سائز A4سے بڑا تھا۔ اس کے لیے جاپان کا ورق استعمال کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ خود انڈونیشیا میں بڑا عمدہ پیپر بنتا ہے۔ خود میں انڈونیشی کمپنی APPملز کا بنا ہوا پیپر مدتوں اپنی کتابوں کے لیے خریدتا رہا۔ میرے انڈونیشیا آنے کا سب سے بڑا سبب حدیث کے اس انسائیکلو پیڈیا کو دیکھنا تھا۔ میں عبدالغفار کو مباک باد اور اسے خدمت حدیث پر تشجیع دینے کے لیے آیا تھا۔ میرے لیے اس سے بڑی سعادت کیا ہو سکتی ہے کہ میرے پیارے نبی میرے پیارے رسول، رہبر، رہنما میرے آقا کے فرامین پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔ میں نے نجانے کتنی مرتبہ پیار اور عقیدت بھری نگاہوں سے عبدالغفار کو دیکھا۔ میں ریاض سے ان کے لیے تعریفی کلمات پر مشتمل شیلڈ بھی لے کر آیا تھا۔ عبدالغفار نے اپنے اس کام میں جدت پیدا کی ہے کہ اس انسائیکلو پیڈیا کو نہایت خوبصورت انداز میں شائع کیا ہے۔ جکارتہ میں اب ایسے کتنے ہی بڑے بڑے پرنٹنگ پریس موجود ہیں جو بیروت کے مقابلہ میں سستے ہیں اور طباعت کے اعتبار سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ عبدالغفار اب تک کم و بیش اس انسائیکلو پیڈیا کے پچاس ہزار نسخے مارکیٹ میں پہنچا چکا ہے۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ اس کی مارکیٹنگ کا طریقہ کار کیا ہے۔ اس نے ان کتابوں کے لیے لکڑی کی بڑی خوبصورت شیلف تیار کی ہے۔ دیوار میں لٹکانے کے لیے خصوصی ڈیزائن بنایا ہے۔ انڈونیشیا جسے ہم غریب ملک سمجھتے ہیں ایسے ملک میں پچاس ہزارنسخوں کا فروخت ہونا کسی عجوبہ سے خالی نہیں۔ بڑا سٹور کسی دوسری جگہ واقع تھا۔ جہاں ہم وقت کی قلت کی وجہ سے نہ جا سکے۔ عبدالغفار کا کہنا تھا کہ اگر آپ کے پاس وقت ہوتا تو وہ مجھے جکارتہ کے اس بڑے پرنٹنگ پریس میں لے جاتا جہاں حدیث کے انسائیکلو پیڈیا کو شائع کیا گیا ہے۔ جہاں تک اس کی قیمت کا سوال ہے تو اس کی قیمت امریکی ڈالروں میں 320ڈالرز بنتی ہے اور ریالوں میں 1200ریال ہے۔ اس نے تقسیم کرنے کے لیے کم و بیش ایک سو سیلز مین رکھے ہوئے ہیں۔ وہ تقریباً 20%تک سیلزمین کو کمیشن دیتا ہے۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں اس ادارے نے لوگوں کو شعودر دیا ہے کہ قرآن کریم اور اس کی تفسیر تو آپ کے گھر میں ہے اب اللہ کے رسولکی سنت بھی آپ کے گھروں میں ہونی چاہئیے۔ سیلزمین افراد کو ٹارگٹ کرتے ہیں ان کے گھروں، دفتروں یا پبلک مقامات پر ملتے ہیں۔ انہیں صحاح ستہ کی افادیت سے آگاہ کرتے ہیں حدیث کے متوالے، اس سے پیار اور محبت کرنے والے جوق در جوق اسے خریدتے ہیں اپنی الماریوں کی زینت ہی نہیں بلکہ اس کا مطالعہ بھی کرتے ہیں الحمد للہ کتاب و سنت کا مسلک ہر جگہ پھیل رہا ہے۔ 
ہم اپنے ہوٹل سے صبح سے نکلے ہوئے تھے شام کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ کل کے سفر کی تھکاوٹ ابھی باقی تھی۔ میں نے200ڈالز اپنی اہلیہ کو پکڑائے اور کہا کہ اسے عبدالغفار کی اہلیہ کو گفٹ کے طور پر پیش کرے۔ پہلے تو اس نے سختی سے انکار کیا مگر جب میں نے اسے کہا کہ تم ہماری بیٹیوں کی طرح ہو تو اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے خوشی سے قبول کر لیے۔ 
قارئین کرام: اللہ کے رسولسے محبت کے تقاضے بہت زیادہ ہیں ان کو پورا کرنا نا ممکن ہے ۔ تاہم کتاب و سنت سے پیار کرنا اس کی اشاعت کرنا لوگوں تک آپ کے فرامین کو پہنچانا بہت بڑی نیکی اور سعادت ہے۔ چلیے ایک حدیث پڑھ کر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ اللہ کے رسولنے ایسے لوگوں کو بشارت دی ہے آپ نے ایسے لوگوں کے لیے دعا کرتے ہوئے فرمایا :نضر اللہ امرأ سمع منا حدیثا فحفظہ حتی یبلغہ  غیرہ ۔ اللہ تعالی ایسے شخص کو ترو تازہ ، شاداب رکھے جس نے ہم سے حدیث سنی پھر اسے یاد کر لیا اور پھر اسے دوسرے لوگوں تک پہنچا دیا۔ 
اس حدیث کی بہت زیادہ شرحیں لکھی گئی ہیں۔ مگر میرے نزدیک اس کے مخاطب ان شاء اللہ وہ ناشرین اور اصحاب المکتبات بھی ہیں جو اللہ کے نبی کی حدیث کی خدمت کرتے ہیں۔ اس کو دوسری زبانوں میں ترجمہ کر کے شائع کرتے ہیں۔ لوگوں کے گھروں تک پہنچانے کا بندوبست کرتے ہیں۔ چونکہ میں خود الحمدللہ صحاح ستہ کا انگلش، اردو میں ترجمہ کر کے شائع کر چکا ہوں اس لیے مجھے خوب اندازہ ہے کہ یہ کتنا مشکل اور ذمہ داری کا کام ہے۔ اگر آپ کی وجہ سے خدمت حدیث ہو رہی ہے تو یہ بہت بڑی سعادت ہے۔
رات کے کھانے کے لیے میںنے عبدالغفار سے معذرت کرلی۔ کچھ آرام کے بعد میں اپنی عادت سے مجبور ہو کر ہوٹل سے باہر نکلا۔ دراصل میں نے ہوٹل میں آتے ہوئے ایک بڑے شاپنگ مال کو دیکھ لیا تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ اس میں ہمیں کھانے پینے کے لیے بہت کچھ مل جائے گا ۔ میں نے اہلیہ سے کہا کہ چلو ذرا ایڈونچر سہی ۔ یہ درست ہے کہ ہمیں انڈونیشی زبان نہیں آتی۔ انگلش تو آتی ہے اور پھر اشاروں کی زبان سب سے بہتر زبان ہے۔
شاپنگ مال کا ماحول ہمیں بالکل پسند نہ آیا۔ بے فکرے جوڑے قہوہ خانوں اور ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ بعض جگہوں سے میوزک کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔ نوجوان لڑکیاں فیشن کے ساتھ ساتھ اپنے جسم کی نمائش کرنے آئی ہوئی تھیں۔ سچ پوچھیے تو آج مسجد استقلال کا ماحول اور اس شاپنگ سینٹر کا ماحول قطعی مختلف تھا۔ اسلامی ممالک کی یہ بد قسمتی ہے کہ یورپ کی اندھی تقلید میں ہم لوگ اپنی روایات اور ثقافت کو بھولتے جا رہے ہیں ۔ ہمیں اس سفر میں گنتی کی چند عورتیں نظر آئیں جنہوں نے مکمل نقاب کیا ہوا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ شافعی فقہ میں چہرے کے پردہ کا کیا حکم ہے؟ تھوڑی سی کوشش کے بعد ہم شاپنگ سنٹر میں ایک ایسے ریسٹورنٹ کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے جہاںمیوزک نہیں تھا اور زیادہ رش نہ تھا۔ میں نے اپنے اجتہاد ، کچھ انگلش ، کچھ اشاروں سے فش، سوپ چاول سلاد وغیرہ خریدا۔ کھانا اگرچہ بہت زیادہ مزیدار نہ تھا تو فضول بھی نہ تھا۔ ہماری زبان سے الحمدللہ تو نکل ہی رہا تھا۔ کھانے کے بارے میں ہم دونوں کا تبصرہ تھا Not so Bad۔ مجھے عبدالغفار نے بتایا تھا کہ میں ہفتہ اور اتوار کو مختلف پروگراموں میں مصروف ہوں۔ میں نے بھی اسے بتا دیا تھا کہ میں ہفتہ کے روز جینی سے ملنا چاہتا ہوں۔ تاہم اتوار کا دن میں نے سیر سیاحت کے لیے رکھا ہے۔ جینی کون ہے پہلے اس کے بارے میں جان کر ہم آگے بڑھتے ہیں ۔
 

شیئر: