Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

محاسبۂ نفس

***یاسر اسعد۔ ریاض***
تجارت وکاروبار اور دیگر دنیاوی امور سے تعلق رکھنے والا انسان اپنے معاش کی فکر میں ہمہ وقت غلطاں رہتا ہے، ہل من مزید سے اس کی زبان ہمیشہ تر رہتی ہے، اس کی یہی کوشش رہتی ہے کہ کسی طرح اس کی تجارت ترقی کی راہ پر گامزن ہواور اس کا مستقبل محفوظ ہو، اس کے لیے وہ بہت سارے اوقات احتساب میں گزارتا ہے، سابقہ اخراجات کو دیکھتا ہے، اس سے ہونے والی آمدنی کا جائزہ لیتا ہے، کہاں کمی ہے اس کے ازالے کی سعی کرتا ہے، اور مستقبل کے لیے پلاننگ کرتا ہے۔ یہ اس کا دنیاوی امور سے متعلق احتساب اور محاسبہ ہوتا ہے جس میں وہ کوئی کمی وکوتاہی نہیں کرتا۔ اب آئیے دینی امور کی طرف!
اس کائنات میں انسان کی تخلیق اور اس کی آبادکاری کا واحد مقصد اس کے رب ذوالجلال نے اپنی عبادت بتلایا ہے۔ رب کی عبادت کے کیا طرق ہیں، اس کے کیا لوازمات ہیں، یہ تما م امور کتاب وسنت میں بالتفصیل واضح کردیے گئے ہیں، اب انسان کی ذمہ داری صرف ان کو عملی جامہ پہنانے کی ہے۔ دوسری طرف اللہ کی راندۂ درگاہ مخلوق ابلیس لعین نے روز اول سے ہی قسم کھالی تھی کہ وہ پروردگار کے نیکوکار وصالح بندوں کو اپنے دام فریب میں لاکر رہے گا،انہیں طرح طرح سے گمراہ کرے گا، اور حتی الامکان انہیں عبادت الہی سے پھیر کر اپنی ذات کا پیرو بنا کر رہے گا، جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے(شیطان نے دھتکارے جانے کے بعد کہا کہ) اور میں تیرے بندوں کو بہکاتا رہوں گا اور باطل امیدیں دلاتا رہوں گااور انہیں سکھاؤں گا کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑ دیں} (نساء: ۱۱۹)
چونکہ شیطان روز اول سے انسان کی ضلالت وگمراہی کے در پے ہے،اس لیے اللہ رب العزت نے اس کے دام فریب سے بچنے کے لیے متعدد طرق کی طرف رہنمائی فرمائی ہے، اور اس خسارے سے انسان کو بچانے کی راہ بتائی ہے۔ موجودہ دور میں جب کہ اس کا دائرہ کار دن بدن ترقی کرتا جارہا ہے، ان الہٰی طریقوں پر عمل درآمد کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے۔ ان ہی جملہ ہدایت کی راہوں میں ’’محاسبۂ نفس‘‘ عظیم الشان اہمیت کا حامل ہے۔ 
نفس انسانی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کے اندر من جانب قدرت خیر اور شر دونوں ودیعت کیا گیا ہے، اب یہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے خیر کی راہ پر لگائے اور ثواب کا طالب ہو، ورنہ یہی نفس اس کو ہلاکت کے دہانے پر لے جاسکتاہے۔ اسی لیے قرآن حکیم میں نفس کی مندرجہ ذیل اقسام کا تذکرہ کیا گیا ہے، نفس مطمئنہ، نفس راضیہ، نفس مرضیہ، نفس لوامہ، نفس امارہ، نفس ملہمہ۔  اول الذکر چار قسم کے نفوس کا تعلق خیر اور بھلائی سے ہے۔ مطمئن نفس اطاعت الٰہی کا فریضہ انجام دے کر بے خوف اور امن وامان میں رہتا ہے، غموں سے اس کا واسطہ نہیں ہوتا، نفس راضیہ ومرضیہ کا ذکر بھی سورت فجر میں ایک ساتھ کیا گیا ہے، راضیہ وہ نفس ہے جو اللہ کے دیے پر قناعت کرلیتا ہے اور اسی پر راضی رہتا ہے۔ اللہ ایسے نفس سے خوش ہوتا ہے تو اسے مرضیہ کہا جاتا ہے۔ 
نفس لوامہ وہ نفس ہے جو انسان کی گناہوں اور معاصی پر اس کی سرزنش کرتا ہے، جبکہ نفس ملہمہ کے اندر فسق وفجور اور نیکی وصالحیت دونوں کا امکان رہتا ہے۔ نفس امارہ انسان کو برائیوں پر آمادہ کرتا ہے اور اس کا خوگر بناتا ہے۔ 
غور کریں تو نفس کی چھ اقسام میں صرف نفس امارہ ہی واحد نفس ہے جو برائیوں اور معصیتوں کا منبع ہے جبکہ نفس ملہمہ کے اندر نیکی وبدی دونوں کی موجودگی ہوتی ہے۔ گویا منجانب شریعت انسان کے نفس کے احوال میں75فیصد حالت نیکی کی ہوتی ہے، برائی اورمعصیت کا امکان صرف 25فیصد ہوتا ہے، مگر افسوس کی بات ہے کہ بالعموم یہ25فیصد 75فیصد پر بھاری پڑتا ہے اور انسان ہمہ وقت برائیوں میں غرق رہتا ہے۔ دراصل وہ نفس کے اندر کی اس روشنی کو محسوس نہیں کرپاتا جو اس کو برابر ہدایت کی طرف گامزن کرتی رہتی ہے اور اس سے خلاف شریعت کام سرزد ہونے پر اس کو ملامت بھی کرتی ہے۔
یہیں سے محاسبہ نفس کی عظیم الشان ضرورت سمجھ میں آتی ہے۔ جب ایک چوتھائی حصہ بقیہ تین چوتھائی پر بھاری پڑتا ہے تو لازمی بات ہے کہ یہاں چھان بین اور محاسبے کی حاجت ہوگی۔ اسی کی طرف کتاب وسنت میں متعدد مقامات پر توجہ دلائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:اے اہل ایمان! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ بھال لے کہ کل قیامت کے واسطے اس نے کیا ذخیرہ بھیجا ہے(حشر 18)۔
درحقیقت محاسبہ نفس کا یہ عمل دو عظیم چیزوں کا متقاضی ہے، ایک وقت دوسرے حوصلہ۔ بندہ جب اپنا محاسبہ کرتا ہے اور اعمال کا جائزہ لیتا ہے تو اسے شدید شرمندگی اور ندامت ہوتی ہے، اس کے سامنے گناہوں کا انبار لگا ہوتا ہے، بہت ممکن ہے کہ وہ اپنے گناہوں کی کثرت کو دیکھ کر حوصلہ کھو بیٹھے اور ناامید ہوجائے، پھر مایوس ہوکر وہ رجوع الی اللہ کی امید ترک کرکے اسی ڈگر پر رہنے کو ترجیح دے جس پر وہ چل رہا ہے۔
دوسرا اہم تقاضا وقت کا ہے، محاسبہ نفس سے ذات کی اصلاح طویل وقفے کی متقاضی ہے کیوں کہ راہ ضلالت سے راہ ہدایت کا سفر کافی صبر آزما ہوتا ہے، یہاں بھی اگر انسان نے صبر سے کام نہ لیا تو اس کا اپنی ذات کا محاسبہ اسے کچھ بھی فائدہ نہ پہنچا سکے گا۔
انسان جب روز آخرت کا تصور کرے گا، اس کی ہولناکیوں کو مد نظر رکھے گا تو اس کے اندر احتساب نفس کا داعیہ خود بخود پیدا ہوگا، کیونکہ جب اسے یہ یقین ہوجائے گا کہ ایک دن خود اس کا محاسبہ کیا جائے گا تو یہ چیز اسے اپنی ذات کا جائزہ لینے پر مجبور کردے گی، اسی لیے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’اپنی ذات کا محاسبہ کرلو ،اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے‘‘۔
خلاصہ یہ ہے کہ محاسبہ نفس انسان کی اصلاح کے لیے واجب عظیم ترین امور میں سے ہے جس کی ضرورت فی زماننا بہت زیادہ ہوگئی ہے، کیونکہ یہی وہ راہ ہے جس پر چل کر انسان صحیح معنوں میں اپنے دین پر قائم رہ سکتا ہے اور شیطان کے حربے سے خود کو بچا سکتا ہے، اسی لیے اس کو مومن کی صفت بتایا گیا ہے، چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’مومن اپنے گناہوں کو پہاڑ کی چوٹی پر سمجھتا ہے اور ہمہ وقت اسے اندیشہ رہتا ہے کہ وہ اس پر آگریں گے، جب کہ فاجر آدمی کے نزدیک اس کے گناہ اتنے معمولی ہوتے ہیں گویا وہ کوئی مکھی ہو جو ا سکی ناک پر بیٹھے اور وہ اسے (ہاتھ کے اشارے سے) اڑا دے، (اور یوںوہ گناہوںسے پاک ہوجائے)‘‘ (صحیح بخاری)
واضح رہے کہ اپنی ذات کا محاسبہ صرف دین کے عظیم الشان امور میں نہیں کیا جائے گا بلکہ چھوٹی چھوٹی اور نفل عبادات سے متعلق بھی اپنا دامن ٹٹولنا چاہیے تاکہ اس سے عظیم الشان عبادتوں کو انجام دینے کا حوصلہ پیدا ہو۔ 
اللہ تعالی ہم سب کو اپنی اصلاح اور محاسبہ نفس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
 
 

شیئر: