جنت المعلاۃ ، مکہ مکرمہ کا تاریخی قبرستان
جنت المعلاہ مکہ مکرمہ کا تاریخی قبرستان ہے۔ سوق اللیل کے قریب واقع ہے۔نبی کریم نے اس کا تعارف اچھے الفاظ میں کیا ہے۔ آپ کے ارشاد کا مفہوم یہ ہے:
’’یہ اچھا قبرستان ہے۔‘‘
اس قبرستان میں ام المؤمنین حضرت خدیجہ ؓ کی قبر ہے۔ اس میں نبی کریم کے بیٹے عبداللہ اور القاسم کی قبریں بھی ہیں۔ علاوہ ازیں عبداللہ بن زبیر اور مکہ مکرمہ کے پہلے والی عتاب بن اسید وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی قبریں بھی جنت المعلا ہ میں ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ مکہ مکرمہ کے قبرستانوں میں بہت سارے صحابہ رضی اللہ عہنم ، تابعین اور تبع تابعین کی قبریں پائی جاتی ہیں۔ پوری مسلم دنیا کے ممتاز علماء و مشائخ اور عام لوگوں کی قبریں بھی مکہ مکرمہ کے مختلف حصوں میں واقع قبرستانوں میں پائی جاتی ہیں۔بعض علماء کا کہنا ہے کہ ابھی تک جنت المعلا ہ میں کسی صحابی کی قبر تحقیق کے ساتھ معلوم نہیں ہوسکی ۔
المعلا ہ قبرستان الحجون روڈ کے شروع میںہے۔ یہ مکہ مکرمہ کے المعابدہ محلے کی طرف سے حرم شریف جانے والے شخص کے دائیں جانب پڑتا ہے۔ المعلا ہ قبرستان میں مردوں کی تجہیز و تکفین کا مرکز ہے۔ میت کو لانے کیلئے ایمبولینس کا بھی بندوبست ہے۔ اسکا انتظام مکہ مکرمہ میونسپلٹی کرتی ہے۔عام طور پر جنت المعلا ہ قبرستان میں ایسے لوگوں کی میت لیجائی جاتی ہے جن کی نماز جنازہ مسجد الحرام میں پڑھی جاتی ہے۔ نماز ی جنازہ دفنانے کیلئے المعلا ہ قبرستان لیجاتے ہیں۔مسجد الحرام اور اس قبرستان کافاصلہ معمولی سا ہے۔مکہ مکرمہ میں بہت سارے قبرستان ہیں۔ ہر قبرستان اپنے محل و وقوع یا کسی مخصوص گروپ سے انتساب کے حوالے سے مشہور ہے۔ تاریخی مراجع میں مقبرہ المعلا ہ یا مقبرہ الحجون سے متعلق معلومات ملتی ہیں۔علاوہ ازیں ثنیتہ اذاخر، المہاجرین، الشبیکہ وغیرہ قبرستانوں کے تذکرے بھی ملتے ہیں۔
معلاہ قبرستان حجون پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ یہ ریع الحجون سے جنوب مغرب میں پڑتا ہے۔اس کی مشرقی سمت میں جبل اذاخر ہے۔ قبرستان کے مغرب میں جبل السلیمانیہ ہے۔اہل مکہ قدیم زمانے سے ہی اس میں تدفین پسند کرتے ہیں۔ عصر حاضر میں بھی اہل مکہ اس قبرستان میںدفنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
اس قبرستان کے فضائل کی احادیث ملتی ہیں۔ بعض کا تذکرہ الازرقی نے اپنی کتاب اخبار مکہ میں کیا ہے۔بعض اہل مکہ کا خیال ہے کہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ ابی دب گھاٹی میں اپنے مردے دفن کیا کرتے تھے۔ اہل اسلام بھی وہیں اپنے مردے دفن کرنے لگے۔ایک وقت تھا جب المعلا ہ قبرستان کے اطراف پتھر کی فصیل بنی ہوئی تھی۔ ابراہیم پاشا نے اسکا تذکرہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں :
’’29ربیع الثانی بدھ 1086ھ کویمن سے آنیوالے شیخ محمد علی بن سلیمان الوزیر نے المعلاہ قبرستان کی قبریں منہدم کرنی شروع کیں۔ انہوں نے 4 دیواروں والا قبرستان بنایا۔ اسکے 2دروازے تعمیر کئے۔ وہ مکہ مکرمہ اور مناسک حج میں نظم و ضبط کے دلدادہ تھے۔‘‘
مکہ مکرمہ میونسپلٹی نے فصیل دوبارہ تعمیر کرائی ۔ اِن دنوں المعلاہ قبرستان کی فصیل پختہ ہے و جدید طرز کی ہے۔ المعلاہ قبرستان بڑے قبرستانوں میں شمار ہوتا ہے۔ آج تک اس میں مردے دفن کئے جاتے ہیں۔ ایک قبر کئی مرتبہ استعمال کی جاتی ہے۔ جب قبرستان بھر جاتا ہے تو قبر کو صاف کرکے دوبارہ کسی اور مردے کو دفن کردیا جاتا ہے۔ایک وقت ایسا آیا جب المعلاہ قبرستان کی قبروں میں گندہ پانی سرایت کر گیا۔ وجہ یہ تھی کہ اس قبرستان کی سطح آس پاس کی سڑکوں سے نیچے واقع ہے۔ اسی وجہ سے قبرستان کی سطح کو اونچا کیا گیا اور قبروں کو ازسر نو تیار کیا گیا۔ اب اسکی سطح آس پاس کی سڑکوں سے اونچی ہوگئی ہے۔
ماضی میں رواج یہ تھا کہ جب کسی مردے کو دفن کیا جاتا تو اسکی قبر پر کوئی امتیازی علامت لگا دی جاتی تھی تاکہ نشانی رہے اور پتہ چل سکے کہ یہ قبر فلاں شخصیت کی ہے۔ ایک کتبہ لگایا جاتا تھا جس پر متوفی کا نام نمایا ں شکل میں تحریر کیا جاتا ۔ بعض آیات اور دعائیں بھی تحریر کی جاتی تھیں۔ اکثر اوقات تاریخ، مہینہ اور سال بھی لکھا جاتا تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ قبرستان کے نقوش تبدیل ہوگئے۔ کتبے بکھر گئے۔کتبوں کو قبرستان کی قبروں میں استعمال کیا گیا۔