شہزاد اعظم
بچپن کے دن تھے، ہم کراچی شہر کی ایک ایسی کالونی میں رہائش پذیر تھے جس میں معاشرے کے تما م طبقات پائے جاتے تھے ۔ ان طبقات کی تقسیم کچھ یوں تھی کہ کالونی میں جیسے ہی داخل ہوتے تو بڑی بڑی کوٹھیاں، دیوہیکل آہنی گیٹ، ان میں داخل ہوتی اور باہر نکلتی قیمتی گاڑیاں، ان میں براجمان انمول ہستیاں دکھائی دیتیں۔اگر اتفاقاً یا حادثتاً کسی پیدل شخص کو ان کوٹھیوں کے ساکنان سے ملاقات کی ضرورت ہوتی تو وہ کسی ”سائل“ کے انداز میںباہر لگی بیل بجاتا، اندر سے کوئی جواب آنے سے قبل ہی جرمن شیفرڈاس سے گستاخانہ انداز میں ”ہم کلام“ ہوتا۔ وہ اس کو کچھ کہنے کی جراَت نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کوٹھی کے مکینوں کی نظر میں جرمن شیفرڈ کی قیمت اُس سے کہیں زیادہ ہے ۔ وہ بے چارہ”بھونک“ سے گھبرا جاتا اور سرپر پاﺅں رکھ کر بھاگنے کی کوشش کرتامگر اسی دوران انٹرکام سے آنے والی آوازفضا¶ں میں گونجتی کہ” کون ہے بھئی،بعدمیں آنا ابھی ہم بزی ہیں۔“ہمارا گھر ان کوٹھیوں میں نہیں تھا۔
اسی کالونی میں ذرا دور تک جاتے تو کوٹھیوں کی جگہ بنگلے دکھائی دینا شروع ہوجاتے ۔ ان کے گیٹ جنگلا نما ہوتے جو جسامت کے اعتبار سے قدرے چھوٹے تھے ۔ وہاں بیل وغیرہ بجانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی تھی کیونکہ ان گھروں کے آہنی گیٹ ایسے ہوتے تھے کہ جنہیں آنے والا خود ہی کھول سکتا تھا اور خود ہی بند کرسکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان بنگلوں میں رہنے والے اور ان سے ملنے کے لئے آنے والے ”قیمتاً“ ایک دوسرے کے ہم پلہ سمجھے جاتے تھے۔ان بنگلوںمیں ہمارا گھر نہیں تھا۔
کالونی میں ذرا مزید دوری تک جاتے تو بنگلوں کی جگہ مکانات دکھائی دیتے تھے، ان مکانوں کا دروازہ عموماً چوبی ہوتا تھا۔ ملنے کے لئے آنے والا جیسے ہی دروازے پردستک دیتا، اندر سے آواز آتی کہ ”اس وقت کون آگیا، آ رہی ہوں“۔ ان مکانوں میں رہنے والے ایسے ہوتے تھے کہ ان سے ملنے کے لئے آنے والے مقابلتاً زیادہ” قیمتی“ہوتے ہیں۔ہمارا گھر ان مکانوں میں بھی نہیں تھا۔
اسی کالونی میں مزید فاصلہ طے کر کے آگے جاتے تو پختہ مکانات کی جگہ کچے پکے کوارٹر نما مسکن دکھائی دیتے۔ انکے دروازے اپنے مکینوں کی طرح کھلے ہوتے تھے۔ وہ روزانہ اپنے ہاں کسی مہمان کی آمد کی دعا ئیں کرتے تھے۔ جوبھی ان سے ملنے آتا وہ ان مسکنوں کے مکینوں کے مقابلے میں بہت” قیمتی“ قرار پاتاتھا۔ ہمارا گھر ان مسکنوں میں بھی نہیں تھا۔
کالونی میں کچھ اور دوری تک جاتے تو ایسا علاقہ شروع ہوجاتا جو کالونی نہیں بلکہ ”گوٹھ“ کہلاتاتھا۔ یہ ایسا رہائشی خطہ تھا جہاں کے باسیوں سے ملنے کے لئے کوئی نہیں آتا تھا کیونکہ وہ اس خطے میں آنے سے ڈرتا تھا کہ اگرمیں وہاں چلا گیا تو”مکمل“ واپس نہیں آ سکوں گا۔ اس ”گوٹھ“ میں مزید آگے جاکر وہ چہار دیواری آتی تھی جسے ہم اپنا گھر کہا کرتے تھے۔ ”ججو“ ہمارا ہمسایہ تھا جوہمارا ہم عمرتھا۔اس علاقے میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو 24گھنٹے میں ایک وقت روٹی کھایا کرتے تھے تاہم ”ججو“اور اس کے اہل خانہ دن میں کبھی دو وقت اور کبھی ڈھائی وقت روٹی کھا لیا کرتے تھے چنانچہ اس کا شمار ” گوٹھ کے امرائ“ میں ہوا کرتا تھا۔وہ اپنے کھولی نما گھرمیں 8بہن بھائیوں اور والدین کیساتھ رہا کرتا تھا۔جب وہ باہر نکلتا تو سینہ تان کر چلتااور دوسروں کے مقابلے میں خود کو ”تونگر“ سمجھتا۔ ”ججو“ کے ہمجولی اسے سینہ تان کر چلنے کا حقدار سمجھتے تھے کیونکہ ایک تو اس نے 2وقت کی روٹی کھا رکھی ہوتی تھی اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے والد کی پرچون کی دکان پر بیٹھا کرتا تھا۔ اس حوالے سے وہ خود کوبجا طور پر اس ”گوٹھ کا بزنس مین“تصور کرتا تھا ۔ ”ججو“ سے ہماری بہت ہی اچھی اور پائدار دوستی تھی۔ اس دوستی کی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ گوٹھ میں ہم ہی وہ واحد شخصیت تھے جسے ”ججو“کھانے کے لئے پوچھ لیتا تھا۔ہم ”ججو“کی اس ”بے لوث“ دوستی کو سراہنے کے لئے اکثر اس کی دکان پرپہنچ جاتے۔وہ ہمیں دکان کے اندر بلاتا اور اسٹول پر بٹھا دیتا۔اس کی ”مثالی دوستی“ کا ایک ثبوت یہ دیکھئے کہ وہ دکان میں رکھی مونگ پھلی کھاتا تو ہمیں بھی پوچھتا تھا کہ کھاﺅگے؟ ادھر ہمارا خلوص دیکھئے کہ ہم نے کبھی ”ہاں“ نہیں کہا۔انہی روایات کی بنیادوں پر ہماری دوستی قائم رہ سکی جو آج بھی اسی طرح استوار ہے۔
”ججو“بنیادی طور غریب باپ کا بیٹا تھا۔ اسی لئے اس کی دکان میں زیادہ مال و اسباب اور اشیاءنہیں تھیں۔ کوئی گاہک تین چیزیں خریدنے کے لئے آتا تو دکان میں صرف ایک شے ہوتی ، کوئی گاہک 5اشیاءخریدنے کے لئے آتا تو اسے صرف 2میسر آتیں۔ایسے میں ”ججو“کو گاہکوں سے برا بھلا بھی سننا پڑجاتاتھا کیونکہ اکثر”گوٹھیوں“ کو سودا سلف لینے کے لئے ”کوٹھیوں“ کے قریب واقع پُررونق بازار جانا پڑتا تھا۔بعض معمر خواتین جو دور نہیں جا سکتی تھیں جب سودا لینے آتیں تو ”ججو“سے ان کا جو مکالمہ ہوتا وہ بلا شبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتاتھا۔اسے ہم ”پرچُونی استفسار“ کہتے تھے۔دکان پر گھاگرے میں ملبوس80سالہ اماں آتی اور ”ججو“سے پوچھتی”گھاسلیٹ ہے، ”ججو“ کہتا نہیں ہے، وہ پوچھتی نسوار ہے، ”ججو“کہتا نہیں ہے، وہ پوچھتی داتن ہے، ”ججو“ کہتا نہیں ہے، وہ پوچھتی جوئیں نکالنے والی باریک کنگھی ہے، ”ججو“ کہتا نہیں ہے، تو وہ اماں تیوری پر تضحیکی اطوار نمایاں کر کے، آنکھیں پھاڑ کر چلاتی کہ ”سائیں!تمہارے پاس چھا اے، کُج بھی نئیں ہے تو دُکھان کسی اور کودیو نیں، اپنے ابا کو بولو کہ تمہارے کو کہیں بھیک مانگنے کے لئے بٹھا دے“۔ یہ سن کر ”ججو“بہت پشیمان ہوتا۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا مگر ایک دن ایسا ہوا کہ وہی اماں سودا لینے کے لئے آئی اور جب اسے دکان سے ضرورت کی کوئی بھی چیز نہ مل سکی تو اس نے اپنا جوتا اُتارا اور ”ججو“ کی پٹائی شروع کر دی۔ ہم نے اماں کو روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے 3جوتے ہمیں بھی جڑ دیئے۔بس وہ آخری دن تھا، اس بے عزتی کے بعد ”ججو“نے دکان کھولنا اور ہم نے وہاں جا کر بیٹھنا ترک کر دیا۔
کل ”ججو“کا فون آیا۔ ہمارے منہ سے اتفاقاً یہ جملہ نکل گیا کہ وطن عزیز ”جمہوریت کے مارے“ پھل پھول رہاہے۔ یہ سنتے ہی ”ججو“ نے وہی ”پرچُونی استفسار“ کرنا شروع کیا کہ کیا بجلی ہے، ہم نے کہا نہیں، پانی ہے، ہم نے کہا نہیں، گیس ہے، ہم نے کہا نہیں، ارزانی ہے، ہم نے کہا نہیں، روزگار ہے، ہم نے کہا نہیں، امن و امان ہے، ہم نے کہا نہیں، تعلیم و صحت ہر کسی کو دستیاب ہے، ہم نے کہا نہیں، ”ججو“ نے کہا کہ انصاف میسر ہے، ہم نے کہا نہیں۔ اس نے کہا کہ شرم کرو، حیا کرو، دکھان کسی اور کو۔۔۔اس مقام پر ”ججو“ کے فون کی بیٹری ختم ہوگئی اور ہم نے سکھ کا سانس لیا۔