کراچی (صلاح الدین حیدر) ملک میں مسائل ویسے ہی کیا کم تھے کہ وفاقی وزراءاور تحریک انصاف کے ممبران صوبائی اسمبلی نے عقلمندی کا ثبوت دینے کی بجائے سندھ حکومت کو گرانے کے نعرے بلند کر کے وزیراعظم کےلئے مزید مصیبتوں کا سامان پیدا کردیا۔ یہ تو خیر ہوئی کہ عمران کو جلد سمجھ میں آگیا کہ ملک میں نیا بحران کھڑا ہوگیا ۔ ان کے اسمبلی کے ممبران اور وفاقی وزراءنے ناسمجھی میں انہیں ایک نئے مسئلے سے دو چار کردیا ہے۔
انگریزی میں حکمرانوں کے لئے پہلا سبق یہی ہے کہ کسی بھی وزیر اطلاعات کو اپنی تشہیر کی بجائے حکومت وقت، پارٹی اور سربراہ حکومت کی تشہیر کرنی چاہیے۔ اب اس کا کیا کیا جائے کہ مشاہد حسین، شیخ رشید، فواد چوہدری نے اس اصول کو یا تو یکسر بھلادیا یا پھر اس سے بالکل ہی نا واقف تھے۔ فواد چوہدری سندھ کے ایم پی اے خرم شیرزمان، ریلوے منسٹر شیخ رشید اور علی زیدی نے مراد علی شاہ کے استعفیٰ کا نہ صرف مطالبہ کر ڈالا بلکہ یہ کہہ کر کے پیپلز پارٹی کی جگہ پی ٹی آئی کی حکومت کو سندھ میں حکومت بنانی چاہیے، ملک میں سیاسی فضا کو خراب کردیا۔ تیزی سے بگڑتے ہوئے حالات میں گورنر عمران اسماعیل کا بیان خوش گوار رہا کوئی گورنر رول نہیں لگا رہا نہ ہی پیپلز پارٹی کی حکومت ہٹائی جارہی ہے۔ ہاں اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ سندھ میں مراد علی شاہ کی جگہ کوئی اور وزیر اعلیٰ بن جائے۔ موجودہ وزیر اعلیٰ کے خلاف جے آئی ٹی رپورٹ اور منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔ اگر تحریک انصاف کے اپنے 2 وزراءبابر اعوان اور اعظم سواتی کو نیب کی انکوائری کے بعد عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تو دوسروں کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہیے۔ پیپلز پارٹی کی روایت کے خلاف ہے کہ ان کا کوئی وزیر یا مشیر مستعفی ہو۔ ان کے نزدیک تو اقتدار سے چمٹے رہنے میں بہتری سمجھی جاتی ہے۔ جمہوریت کا نعرہ لگوانے والی یہ پارٹی خود ہی جمہوریت کا گلا گھونٹ دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ جب لعن طعن ہوئی اور الفاظ کی جنگ رکنے کی بجائے صوبے اور وفاق میں تناﺅ کا باعث بنی تو عمران کو ہوش آیا۔ انہوں نے فواد چوہدری کو بلا کر انہیں کراچی کا دورہ منسوخ کرنے کا حکم دیا۔ خواہ مخواہ کیوں بحران کو وسعت دی جائے۔ یہ تو خود عمران کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔ اہم کاموں سے ان کی توجہ ہٹ کر خلفشار کی طرف مبذول ہوجائے گی جس سے حکومت اور ملک دونوں کو ہی نقصان کا اندیشہ ہے۔
وزیر اطلاعات نے کراچی کا دورہ جس کا مقصد پیپلز پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے ممبران کو اپنی طرف راغب کر کے صوبائی حکومت کا تختہ پلٹ دینے کی مہم تھی ایک دم ہی ٹھپ ہوگئی۔ اس پر چیف جسٹس کا یہ حکم کہ گورنر رول لگا تو ایک منٹ میں اسے اڑا دیں گے۔ بلاول نے تو دھمکی دے دی تھی کہ اگر والد اجازت دیں تو وفاقی حکومت کو جو صرف 6 ووٹوں کی اکثریت کی بنیاد پر کھڑی ہے پیر صاحب پگارا اور ایم کیو ایم جو وزیراعظم کی حلیف جماعتیں ہیں انہوں نے غیر آئینی اقدامات کی اہمیت سے انکار کردیا۔ ظاہر ہے کہ عمران کے پوچھے بغیر خرم شیر زمان، علی زیدی وغیرہ نے عمران کی اجازت کے بغیر ہی سندھ حکومت کو للکارنا شروع کردیا۔ آخر اس کی ضرورت کیا تھی۔ ویسے بھی نیب اور جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد تو عام طور پر یہی خیال کیا جارہا ہے کہ آصف زرداری اور فریال تالپور اور سید مراد علی شاہ بھی حوالات کے اندر ہوں۔ ابھی تک تو ان کے خلاف عدالتی جنگ جاری ہے۔ اگر ایسا ہوا تو مائنس ون فارمولا پیپلز پارٹی کو لے ڈوبے گا۔ زرداری کو پہلے بھی جیل جانا پڑا تھا اس وقت بےنظیر جیسی قیادت پارٹی کو حاصل تھی۔ بلاول بھی اس مقام پر نہیں پہنچے تو پھر زرداری کے بغیر پیپلز پارٹی کی کشتی ہچکولے کھانے لگے گی۔
ادھر چیف جسٹس نے بھی وارننگ دے دی ہے کہ گورنر رول لگا تو ایک منٹ میں اڑا دیا جائے گا۔ ایسی صورت میں عمران کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ کہیں بازی پلٹ ہی نہ جائے۔ پھر ایک ایسے وقت میں جب عوام میں مہنگائی، بجلی اور گیس کی کمیابی سے بے چینی پھیلی ہوئی ہے انہیں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا پڑے گا۔ ورنہ نتیجہ ان کے خلاف بھی جاسکتا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران نے فیصل واوڈا اور فواد چوہدری سے ملاقاتوں میں ان کو کسی بھی مہم جوئی سے باز رکھنے کی ہدایت کی ہے جس کی اشد ضرورت تھی۔ جوش کے بجائے ہوش کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے وزیر مملکت شہریار آفریدی کو بھی تنبہیہ کی کہ 172 افراد کی ای سی ایل کی فہرست پر فوری نظر ثانی کی جائے ورنہ عدالت خود احکامات جاری کرے گی۔ محض جے آئی ٹی کے ایک خط پر 172 لوگوں کو ای سی ایل پر ڈالنا غلط ہے جس کی فوری درستگی کی ضرورت ہے۔لگتا تو ہے کہ بحران ٹل جائے گا لیکن ابھی تک فضاءزہر آلود ہے جو کسی بھی طرح حکومت کے حق میں نہیں۔