پاکستانی شہریوں کی جانب سے حالیہ کچھ عرصہ کے دوران بیرونِ ممالک سیاسی پناہ لینے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور وہ قانونی یا غیر قانونی دونوں طریقوں سے بیرون ملک پہنچنے کے بعد سیاسی پناہ کی درخواست دے دیتے ہیں۔
پاکستان کے محکمہ پاسپورٹ اینڈ امیگریشن نے اس حوالے سے گذشتہ سال سیاسی پناہ لینے والے پاکستانی شہریوں کے پاسپورٹ کی تجدید یا نیا پاسپورٹ جاری کرنے کے عمل کو روک دیا گیا تھا تاہم بعد ازاں نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی ہدایت پر ایسے شہریوں کے لیے پاسپورٹ کا دوبارہ اجرا شروع کیا گیا ہے۔
محکمہ پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کے ڈائریکٹر جنرل مصطفیٰ جمال قاضی کا کہنا ہے کہ سیاسی پناہ لینے والے شہریوں کے پاسپورٹ کی تجدید یا نئے پاسپورٹ کے لیے آنے والی درخواستوں پر ’نیشنل سٹیٹس ویریفیکیشن‘ پالیسی کے مطابق عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں
امیگریشن کے ماہرین کے خیال میں پاکستانی شہریوں کی جانب سے سیاسی پناہ کے قانون کا غلط طور پر فائدہ اٹھاتے ہوئے اِسے صرف بیرون ملک آباد ہونے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور پھر حکومت ایسے شہریوں کو پاسپورٹ دینے میں تاخیری حربے استعمال کرتی رہتی ہے۔
سیاسی پناہ لینے والے شہریوں کو پاسپورٹ دینے کی پالیسی
پاکستان کے محکمہ پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کے ڈائریکٹر جنرل مصطفیٰ جمال قاضی کا کہنا ہے کہ پاکستانی شہری بیرونِ ملک منتقل ہونے کے لیے سیاسی پناہ لینے کے قانون کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔
’کسی بھی ملک کا شہری جب دوسرے ملک سے سیاسی پناہ کی درخواست کرتا ہے تو اُس درخواست کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اُس کے اپنے ملک میں اُس کی جان و مال محفوظ نہیں اور پھر سیاسی پناہ ملنے کے بعد وہ اپنے ملک کے علاوہ کہیں بھی جا سکتا ہے۔‘
مصطفیٰ جمال قاضی نے کہا کہ ’تاہم ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ پاکستان سے بیرون ملک جانے والے شہری ‘وکٹم کارڈ’ کھیل کر سیاسی پناہ لے لیتے ہیں اور بعد ازاں دوباہ پاکستان کا پاسپورٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘
’ایسی صورت میں وہ سیاسی پناہ دینے والے ملک سے تو دھوکہ دہی کرتے ہی ہیں بلکہ جس ملک میں خود کو خطرہ ظاہر کرتے ہوئے سیاسی پناہ لی ہوئی ہوتی ہے وہاں دوبارہ جانا بھی چاہتے ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ پاسپورٹ کی بحالی یا تجدید کی ایسی درخواستوں پر پھر اپنے اور متعلقہ ملک کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہی عمل درآمد کیا جاتا ہے۔
زیادہ تر پاکستانی کون سے ممالک میں سیاسی پناہ لیتے ہیں؟
اُردو نیوز نے ڈائریکٹر جنرل پاسپورٹ سے یہ جاننے کی بھی کوشش کی کہ پاکستانی شہری زیادہ تر کن ممالک میں سیاسی پناہ لیتے ہیں تو اس حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ ’اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ پاکستانی یورپی ممالک میں ہی سیاسی پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں جن میں اٹلی، فرانس، سپین، جرمنی اور یونان وغیرہ شامل ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’برطانیہ میں بھی پاکستانی شہری سیاسی پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں تاہم اب برطانیہ نے اپنے قوانین میں سختی کر دی ہے جس کی وجہ سے ایسے کیسز میں کمی آئی ہے۔‘
اُنہوں نے امریکہ اور کینیڈا کے حوالے سے بتایا کہ ’پاکستانی شہری ان ممالک میں بھی سیاسی پناہ کے خواہش مند رہتے ہیں تاہم یہ تعداد یورپ کے مقابلے میں زیادہ نہیں ہے۔‘
اُردو نیوز نے امیگریشن کے ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش بھی کی ہے کہ پاکستانی شہریوں کی بیرون ممالک سیاسی پناہ لینے کی وجوہات کیا ہیں اور پھر اس سلسلے میں کون سے ممالک کا انتخاب کیا جاتا ہے، علاوہ ازیں، کیا حکومت سیاسی پناہ لینے والے شہریوں کے پاسپورٹ کی تجدید کر رہی ہے؟
امیگریشن کے ماہر بیرسڑ محمد ساجد مجید چوہدری کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہریوں کی جانب سے بیرون ممالک سیاسی پناہ حاصل کرنے کا مقصد کسی طرح بیرون ممالک آباد ہونا ہوتا ہے۔
اُنہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’اس رجحان میں اضافے کے بعد سیاسی پناہ کے لیے صحیح معنوں میں اہل شہری بھی متاثر ہو رہے ہیں کیوں کہ اُنہیں بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔‘
ساجد مجید کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی شہری سیاسی پناہ کے لیے یورپی ممالک کا ہی انتخاب کرتے ہیں کیوں کہ وہاں سیاسی پناہ لینا نسبتاً آسان ہے۔‘
اُنہوں نے سیاسی پناہ لینے والے شہریوں کو پاسپورٹ کے اجرا کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت پاکستان درخواستوں کو ضرور دیکھ رہی ہے تاہم جو ذاتی فوائد کے لیے سیاسی پناہ لیتے ہیں اُن کے لیے سخت پالیسی اپنائی گئی ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’سیاسی پناہ لینے والے شہریوں کے لیے بیرون ملک جانے کے بعد بھی مشکلات کم نہیں ہوتیں۔ اُنہیں دوبارہ اپنے ملک آنے یا دیگر ممالک کے سفر کے لیے تکنیکی اور قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے وکیل یاسر شمس کے خیال میں سیاسی پناہ دینے کے معاملے میں ہر ملک کے اپنے قوانین ہیں۔ یورپی ممالک سیاسی پناہ کے خواہش مند شہریوں کو خوش آمدید کہتے ہیں کیوں کہ اُنہیں ’سستی لیبر‘ چاہیے ہوتی ہے۔
اُنہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’حکومتِ پاکستان چاہ کر بھی سیاسی پناہ لینے والے شہریوں کو اس اقدام سے روک نہیں سکتی۔ پاکستان سے بیرون ملک سیاسی پناہ کے لیے جانے والے شہری اپنے مکمل ‘ہوم ورک’ کے ساتھ ہی پاکستان سے جاتے ہیں اور پھر ہر قسم کے نتائج کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔‘