چیف جسٹس اور نیب چیئرمین کا عزم و ہمت
کراچی (صلاح الدین حیدر) سیاست میں تو تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان الفاظ کی جنگ جاری ہے لیکن اصل بات جو لوگوں میں اعتماد پیدا کرتی ہے وہ ہے چیف جسٹس اور نیب چیئرمین کا عزم و ہمت۔ دونوں ہی بدعنوانیوں کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں اور کسی طرح کی تنقید خاطر میں لانے کے لئے تیار نہیں۔ نیب چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے اپنے اور نیب کے خلاف تنقید کو سرے سے ہی نظر انداز کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی ہر حال میں قابل احترام ہے۔ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں پوری طرح آزاد ہے۔ ہم کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتے اور ناہی اس کے کام میں روڑے اٹکانے کا سوچ سکتے ہیں۔ ہمارے سر تسلیم خم ہیں۔ انہیں پورا حق ہے کہ وہ جو بھی قانون پاس کریں لیکن ایک بات کا خیال رکھے کہ اگر نیب سے پلی بارگین کا اختیار لے لیا گیا تو نیب دست و پا ہوجائے گی۔ انہوں نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ کون سا ادارہ ہے جو چوری اور ناجائز طور پر کمائی ہوئی دولت کو ملزمان سے واپس لے سکا۔ جسٹس ثاقب نثار جہاں وزیر مملکت شہریار آفریدی پر برہم نظر آئے کہ 172 افراد کو یک جنبش قلم ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں کیسے ڈالا گیا۔ وہیں انہوں نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ جدھر دیکھو ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹیز کے نام سے زمین خریدی جارہی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کسی نے افواج پاکستان کی رہائشی زمینوں کے بارے میں آواز بلند کی ہے۔ سابق میئر کراچی مصطفی کمال بھی اس بات پرشاکی تھے کہ ڈسٹرکٹ کونسل یا کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن یا کراچی ڈولپمنٹ اتھارٹی کے قبضے میں شہر کراچی کی صرف 34 فیصد زمین ہے۔ 1970ءتک کراچی جیسے بڑے شہر میں صرف ایک کنٹونمنٹ بورڈ تھا جو کہ تقسیم ہند سے پہلے فوجی علاقوں کا نظم و ضبط دیکھتا تھا۔ جنرل ضیاءالحق کے زمانے سے ڈی ایچ اے اتھارٹی بناکر اسے خود مختار کردیا گیا۔ آج کراچی میں شاہ فیصل کنٹونمنٹ، ملیر کنٹونمنٹ، آرمی ہاوسنگ سوسائٹی، نیوی ہاوسنگ سوسائٹی، ایئر فورس ہاوسنگ سوسائٹی اور تو اور ایئر پورٹ سیکیورٹی فورس ہاوسنگ سوسائٹی بھی بنا دی گئی۔ چیف جسٹس نے اس بات کا بھی سختی سے نوٹس لیا کہ پاکستانیوں کی ملک سے باہر 2154 جائیدادیں ہیں جن کے 1211 مالکان ہیں۔ ایف آئی اے کو حکم دیا کہ خدا کے لئے قومی دولت بیرونی ممالک سے واپس لائیں۔