Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

راہل گاندھی کہاں جارہے ہیں؟

***ظفرقطب***

کانگریس میں سافٹ ہندو ازم کے عناصر اندرا گاندھی کے زمانے میں بھی تھے جس کا نتیجہ 1980 میں سامنے آیا جب آنجہانی اندرا گاندھی کو کامیاب بنانے میں آر ایس ایس اور دوسری اس قبیل کی تنظیموں نے اہم رول ادا کیا۔ اسی طرح راجیو گاندھی کے زمانے میںبھی آر ایس ایس اور دوسری تنظیموں نے ان کا ساتھ دیا لیکن جب دیکھا کہ راجیو کہیں سے بھی فسطائیت کی جانب جھکنے والے نہیںہیں اس کے باوجود وہ عناصر ہمت نہیں ہارے اور اپنے مشن میں لگے رہے ،اور جب راجیو گاندھی کے بعد نرسمہا راؤ اس ملک کے وزیراعظم ہوئے تو کھل کروہ لوگ سامنے آگئے۔ نرسمہا راؤ اور کانگریس کی کمزوری کی بنا پر فرقہ پرستوں کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے کہ اسی زمانے میں 400 برس پرانی تاریخی بابری مسجد منہدم کردی گئی۔اس کے بعد ملک میں شروع ہوا فرقہ پرستی کا ننگا ناچ اور فسادات کا لا متناہی سلسلہ جس میں کتنے بے گناہوں کی جان گئی اور کتنی املاک جلا کر خاک کردی گئیں۔ اس سے انکار نہیں کہ اس طوائف الملوکی کے دور میں دونوں مذاہب کی عبادت گاہوں کو جگہ جگہ نقصان پہنچایا گیا۔چونکہ یہ جذبہ کانگریس اور بی جے پی میں پہلے سے موجود تھا۔ اس کا اعتراف آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے یہاں لکھنؤ کی ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا۔ انھوں نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ بابری مسجد اور رام جنم بھومی ہمارے ایجنڈے میں شامل نہیں تھی۔ ہم تو بابری مسجد کو بہت پہلے بھلا چکے تھے لیکن جب دیکھا کہ کانگریس اس مسئلہ کو پھر زندہ کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے تو ہم نے سوچا کہ یہ موضوع تو ہمارا ہے اس کا فائدہ ہم کیوں نہ اٹھائیں؟ اس میدان میںہم کانگریس کو کیوں آگے بڑھنے دیںاس لیے اجودھیا میں رام مندر کا مسئلہ اتنے زور و شور سے ہم نے اٹھایا کہ کانگریس پھیکی پڑ گئی۔ اور اس کا ہمیں خاطر خواہ فائدہ پہنچا ۔ حالیہ 3 ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے الیکشن نتائج پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی عوام جو کئی خانوں میںمنقسم ہیں ان میں پسماندہ اقوام ، اقلیتیں اور دلت دوسروں کے مقابلے زیادہ طاقت رکھتے ہیں اور وہ ملک کی قسمت کا فیصلہ جب چاہیں بدل سکتے ہیں۔ چھتیس گڑھ میں تو کانگریس کو اکثریت مل گئی لیکن مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بہت معمولی کامیابی ملی اس پر اگر ہم غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اکثریتی فرقہ کے ووٹ بی جے پی کو کثرت سے ملے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیںہے، لیکن کانگریس کو جو ووٹ ملے ہیں وہ بھی ہندوؤں کے ووٹ کثرت سے ملے ہیں لیکن وہ ووٹ اس طبقے کا ہے جسے دلت ، پسماندہ اقوام اور قبائلی کہا جاتا ہے ان میں اقلیتیں بھی شامل ہیں۔ یہ وہ طبقات ہیںجو ملک میں بنیادی وسائل سے محروم ہیں۔ جو ہندوووٹ بی جے پی کو گئے ہیں وہ برہمن ، راجپوت اور تاجر طبقے کے ہیں۔ جن کا ملکی وسائل پر پورا قبضہ ہے اور حکومت کی ساری نعمتیں انہی کے لیے مختص ہیں۔ اب جو عظیم اتحاد کی گھنٹی بجی ہے اس کے فارمولے میں دلت پسماندہ اقوام اور اقلیتیں شامل ہیں جن کے ووٹوں کا تناسب اترپردیش ، بہار اور بنگال میں بہت زیادہ ہے۔ اسی لیے بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ بہت زیادہ فکر مند ہیں اور ایک میٹنگ کے دوران انھوں نے توباقاعدہ یہ کہا کہ اگر شمالی ہند میں ہمیں پہلے جیسی کامیابی نہیں ملی تو پھر اقتدار میں رہنا مشکل ہوجائے گا لیکن بی جے پی ابھی اپنے آپ کو ہندو نوازی کا کارڈ کھیلنے سے ذرا بھی باز رکھنا نہیں چاہتی۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ بی جے پی اور اس سے کہیں زیادہ نریندر مودی کو اس کا احساس ہے کہ کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے جس طرح سے ہندو نوازی کے فارمولے کو اپنا لیا ہے اس سے بی جے پی سمیت پورا آر ایس ایس ، وشو ہندو پریشد ، ہندو مہا سبھااور بجرنگ دل سخت تشویش میں پڑ گئے ہیں کہ اب ہمیں کوئی نئی حکمت عملی اپنانی پڑے گی۔ حالانکہ یہ پہلا موقع ہے جب بی جے پی کی سخت مخالف کانگریس نے بی جے پی کی ہی پچ پر زبردست سیاسی بلے بازی کرکے اسے آؤٹ کردیا ہے۔ اس پچ کو تیار کرنے میں بی جے پی گزشتہ ستّر ، اسّی برسوں سے محنت کرتی آرہی تھی۔ دلت پسماندہ اقوام یہ سوچنے پر اب مجبور ہوگئے ہیں کہ یہ فلسفہ ترقی پسندنظریے کے خلاف ہے ۔ ادھر چار پانچ برسوں سے ان لوگوں نے اقتدار میں آکر جو وعدے کیے اور ان سے پھر مکر گئے تو عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ آر ایس ایس بی جے پی کی ہندو نوازی سے تو کانگریس کی ہندو نوازی زیادہ بہتر ہے۔ کانگریس کو اس کا احساس پہلے سے تھا لیکن وہ کچھ تو بائیں بازو اور کچھ اقلیتی فرقہ کے ووٹوں کا خیال کرکے بچ کر چل رہی تھی  ۔ اسی لیے اس نے بیچ کا راستہ اختیا رکیا اور سافٹ ہندو ازم اپنا کر راہل گاندھی کو مندر بھیجنا شروع کردیا جس کا نتیجہ حالیہ الیکشن میں تو کانگریس کے حق میں رہا لیکن پسماندہ اقوام اور اقلیتوں کے لیے یہ پھر ایک خطرے کی گھنٹی نہ بن جائے جیسا کہ ماضی میںاندراگاندھی کے دور میںہوا۔ جب چور دروازے سے آر ایس ایس کے ایجنٹ اور فرقہ پرست لیڈران نے پارٹی میں داخل ہوکر ملک اور قوم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایاتھا۔اور اب راہل گاندھی جس راستے پر چلنا چاہتے ہیں یہ انتہائی خطرناک راستہ ہے ابھی تو وہ عوام کو یہ باور کراکے کہ میں بھی ایک راسخ العقیدہ سناتن دھرمی لیڈر ہوں الیکشن تو جیت سکتے ہیں لیکن آنے والے دنوں میں یہی نظریہ کہیں ان کے لیے گلے کی پھانس نہ بن جائے۔ اس لیے انہیں آئندہ الیکشن میں غور کرنا ہوگا کہ مندر اور گھاٹوں پر جاکر جو تاثر دے رہے ہیں وہ کتنا مناسب ہے؟ کیونکہ ملک کے سیکولر عوام کی زبان پر یہ سوال آرہا ہے کہ راہل گاندھی کہاں جارہے ہیں۔
 

شیئر: