Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طلاق کے بعد خاتون کو گھر سے بے دخل کرنے سے روکا جائے،قانونی مطالبہ

ریاض ۔۔۔ قانونی امو رکی ماہر خواتین نے مطالبہ کیا ہے کہ طلاق کے بعد خاتون کو گھر سے بیدخل کرنے سے روکا جائے۔ اسکے ساتھ بچے ہوں یا نہ ہوں کسی بھی صورت میں اسے ایسے گھر سے نہ نکالا جائے جہاں اس نے بیوی کی حیثیت سے طویل عرصہ گزارا ہو۔ اسلامی شریعت میں اس قسم کی پابندی لگانے کی کوئی ممانعت نہیں پائی جاتی۔سعودی عرب کی معرو ف قلمکار خاتون عزة السبیعی نے الوطن اخبار میں کالم میں مطالبہ کیا ہے کہ خواتین کو انکے گھروں سے نکالنے سے روکا جائے۔ السبیعی نے توجہ دلائی کہ سعودی معاشرے میں یہ رواج چل رہا ہے کہ باپ اپنی بیٹی کو گھر کا تحفہ دیتے ہیں یا انہیں گھر خریدنے میں مدد دیتے ہیں۔ شادی کے بعد ان بن ہوجانے پر اسے خود اس کے اس گھر تک سے نکال دیا جاتا ہے جو اسکا اپنا خریدا ہوا ہوتا ہے۔ طلاق کے بعد یہ خواتین اپنے بھائیوں کے گھروں میں مہمان کے طور پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ یہ مسئلہ حکومت ہی حل کرسکتی ہے یہ اسکی ذمہ داری ہے۔ اس قسم کے مسائل کو والدین کے جذبات کے حوالے کردینا درست نہیں۔ اس حوالے سے بعض لوگوں نے یہ اعتراض ریکارڈ کرایا ہے کہ طلاق کے بعد عورت شوہر والے گھر میں کیونکر رہ سکتی ہے اور اس حوالے سے واجب النفاذ قانون کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ ایسا کرنے پر خواتین کو ایسے انسان کے گھر پر ناجائز قبضے کا حق حاصل ہوجائیگا جس سے اس کا رشتہ زوجیت ختم ہوچکا ہے۔ السبیعی نے اس کا جواب یہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی شریعت اس مسئلے کے حکم سے سقوط اختیار کئے ہوئے ہے۔ اسلامی فقہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اگر قرآن و سنت میں کسی مسئلے کا حل نہ بیان کیا گیا ہو تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہر دور کے لوگ اپنی ضروریات اور تقاضوں کے لحاظ سے اس کی بابت قانون سازی کرلیں۔سعودی عرب کو یہ مسئلہ حل کرکے مسلم دنیا کے سامنے ایک مثال پیش کرنی چاہئے۔

شیئر: