Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سنگاپور میں 3 دن

***عبدالمالک مجاہد ، ریاض***
میرا اہلیہ سمیت ملائیشیا جانے کا پروگرام کتنے دنوں سے بن رہا تھا۔ اسی دوران خیال آیا کہ چلئے انڈونیشیا اور سنگاپور بھی چلتے ہیں، وہاں کے سلفی تنظیموں کے ذمہ داران سے ملتے ہیں ۔سنگاپور میںدارالسلام کے 2 بڑے گاہک تھے مگر دونوں سے رابطہ منقطع تھا۔ ان کے فون نمبر بدل چکے تھے۔ ویزا کی شرائط میں سے ایک شرط کسی مقامی باشندے کی طرف سے دعوت نامہ کا حصول تھا ۔کسی ہوٹل کا دعوت نامہ قبول نہیں کیا جاتا۔ میں نے ملائیشیا سلفی تنظیم کے ذمہ داران سے بات کی۔ انہوں نے محمدیہ ایسوسی ایشن سنگاپور کے صدر حسین یعقوب کا فون نمبر ارسال کر دیا۔ رابطہ کیا تو میں نے پوچھا :کیا آپ دارالسلام سے واقف ہیں ؟ جواب ملا کیوں نہیں۔ میں نے کہا کہ عبدالمالک نام کا کوئی شخص ہے کیا،آپ اسے بھی جانتے ہیں؟ کہنے لگے کہ در السلام کی کتابیں پڑھتے ہیں، اس نام سے بھی واقف ہیں تو اس طرح کی واقفیت نکلنے کے بعد انہوں نے محمدیہ کے سیکریٹری محمد غزالی کا نمبر دے دیا کہ ان سے بھی بات کرلیں۔ ہفتہ،10 دن کے بعد ان کی طرف سے دعوت نامہ آگیا ۔یوں سنگاپور کے سفارتخانہ میں 2 ہفتہ تک درخواست رہی پھر الیکٹرانک ویزہ آگیا۔
12 نومبر 2018 کو جب ہم سنگاپور کے ایئرپورٹ پر اترے تو رات کے10بج رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ وہاں ہمارا لمبا چوڑا انٹرویو ہوگا مگر ایمیگریشن والوں نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں ہمیں فارغ کر دیا۔ یوں بھی ائیرپورٹ پر زیادہ مسافر نہ تھے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمیں کوئی ایک ڈیڑھ کلومیٹر چلنا پڑا۔ خوش قسمتی سے میں ان لوگوں میں سے ہوںجو زندگی کے ہر لمحہ کو انجوائے کرتے ہیں۔ اگر پیدل چلنا پڑا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آج پیدل چلنے کا کوٹہ پورا ہو گیا ۔ہم نے کچھ کیلوریز مزید کم کر لیں۔ سامان لینے سے قبل ایک ستون کے ساتھ ایک مشین نظر آئی۔ لکھا ہوا تھا: آپ اپنا پاسپورٹ اسکین کریں۔ آپ کو 2گھنٹوں کیلئے فری وائی فائی پاس ورڈ مل جائے گا ۔ایک دو بٹن دبانے کے بعد ایک پرچی پر وای فائی نمبر لکھا ہوا باہر آ گیا۔
  سنگاپور ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی آبادی محض 55 لاکھ ہے۔ مسلمان 14 سے 18فیصدہیں۔ یہ ملک مگر دنیا کے10 مہنگے ملکوں میں سے ایک ہے۔ اس کا کل رقبہ 683 مربع کلو میٹر ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں یہ جاپان کے ساتھ تھا، جب جاپان نے شکست تسلیم کی تواس ملک پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا۔یہاں کی آبادی 65فیصد چینی نژاد ہے اس لئے یہاں پر چینی نژاد بدھ مت حاکم ہے۔ ملک میں پارلیمانی نظام ہے۔ پارلیمنٹ میں مسلمان بھی موجود ہیں۔
  راقم الحروف نے غالباً آج سے 30 سال پہلے سنگاپور کا پہلا سفر کیا تھا۔ اس زمانے میں پاکستانیوں کے لیے ویزا لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ ایئرپورٹ پر ہی ویزہ مل جاتا تھا۔ میں نے کوئی ایک ہفتہ سنگاپور میں گزارا۔ میں نے پلاسٹک کو ویلڈنگ کرنے والی ایک مشین خریدی تھی۔ ایک چینی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا ۔میں نے انہیں کچھ نقد کچھ بینک سے رقم ارسال کردی ۔انہوں نے مشین ہمیں بھیجوا دی۔ ویسے بھی مشین زیادہ مہنگی نہ تھی۔ اس کے بعد دارالسلام بنایا۔ ہماری کتابیں اچھی تعداد میں سنگاپور آنا شروع ہو گئیں۔ ایک مرتبہ پھر 2 دن کیلئے غالباً2005 میں سنگاپور آیا تھا۔ اس زمانے میں ویزا کی زیادہ مشکل پیش نہ آئی۔ ویزا کی درخواست جمع کروانے کے چند دن بعد سفارت خانہ کی طرف سے فون آ گیا کہ ویزا تیار ہے آکر پاسپورٹ لے  جائیں۔
محمدیہ ایسوسی ایشن سنگاپور کے جنرل سیکریٹری محمد غزالی سے فون پر طے ہوچکا تھا کہ وہ مجھے ایئرپورٹ پر لینے آئیں گے۔ میں تیسری مرتبہ سنگاپور آیا ہوں جبکہ اہلیہ پہلی مرتبہ اس خوبصورت شہر کو دیکھ رہی تھیں۔ ائیرپورٹ بہت بڑا اور بہت خوبصورت ہے ۔غالباً نیا ہی بنا ہے یا جس نے پہلے نہ دیکھا ہو اس کیلئے نیا ہی ہے۔ محمد غزالی سے میری پہلی ملاقات تھی۔وہ مجھ سے عمر میں 2سال چھوٹے ہوں گے۔ سنگاپور میں پیدا ہوئے۔ والدین انڈونیشیا سے آئے اور والدہ کا تعلق غالباًچین سے ہے ۔ایمیگریشن سے فارغ ہوا تو میں نے غزالی صاحب کو فون کیا کہ ہم عنقریب سامان لے کر باہر آجائیں گے۔ کہنے لگے کہ میں نے شیشے سے آپ لوگوں کو دیکھ لیا ہے فکر نہ کریں پورے اطمینان سے آئیں میں آپ کے انتظار میںہوں۔ بھاری بھر کم سامان کو ٹرالی پر رکھا کہ اس میں کتب تھیں۔ دیکھا باہر لمبے قد کے محمد غزالی کھڑے تھے۔انہوں نے مجھے گلے سے لگا لیا۔ ساتھ ہی انہوں نے سامان کی ٹرالی کو پکڑ لیا۔سنگاپور آنے پرخوش آمدید،سفر کیسے گزرا اس طرح کے ترحیبی جملے ایسے ہوتے ہیں جب بھی کسی مہمان کااستقبال کرتے ہیں۔ ہم باتیں کرتے جلد ہی پارکنگ میں پہنچ گئے۔ غزالی صاحب کی خوبصورت گاڑی جلد ہی ائیرپورٹ کی حدود سے نکل کر سنگاپور کی خوبصورت اور چوڑی سڑکوں پر دوڑنے لگی۔ ہماری خوش قسمتی کے جلد ہی بارش شروع ہو گئی۔ ہم بارش انجوائے کرتے آہستہ آہستہ شہر کی طرف جا رہے تھے۔
میں نے ریاض میں غزالی صاحب سے کہا تھا کہ کسی ایسے ہوٹل کا پتا بتائیں جو آپ کے دفتر کے قریب ہو تاکہ ہمیں آپ کے پاس آنے جانے میں آسانی رہے ۔ان کا کہنا تھا کہ"محمدیہ" کے پاس مہمان خانہ ہے۔ ہم واجبی سے پیسے لے کر مہمانوں کوٹھہراتے ہیں ۔یہ مبلغ بھی محمدیہ کو مل جاتا ہے۔کوشش کے باوجود ہم یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ ہمیں کس ہوٹل میں ٹھہرنا ہے۔ سنگاپور میری توقع سے چھوٹا لگا۔ اس وقت سڑکوں پر رش کم تھا بارش کبھی تیز کبھی آہستہ ہوجاتی۔ جب ہم شہر کے وسط میں پہنچے تو بارش مکمل ختم ہو چکی تھی۔
ہمارا رخ مصطفی سینٹر کی طرف تھا۔ یہ مارکیٹ نما عمارت پورے سنگا پور میں مشہور ہے۔ مصطفی سینٹر جو کہ نام سے ظاہر ہے ایک اسلامی نام ہے، کسی بھی ٹیکسی ڈرائیور سے مصطفی سینٹر کا پوچھیں وہ آپ کو وہاں پہنچا دیگا۔ اس سینٹر میں ضرورت کی ہر چیز مل جاتی ہے۔ میں نے ایک منی چینجر کی دوکان کو دیکھا تو غزالی سے کہا کہ ذرا گاڑی کھڑی کریں ۔میں تھوڑے سے سنگاپوری ڈالر خریدلوں ۔بھوک بھی لگ رہی تھی ۔ جلد ہی ایک لبنانی ریسٹورنٹ مل گیا جہاں سے ہم نے کھانا پیک کروایا اور گاڑی میں آ گئے۔ کھانے کا بل میری توقع سے کہیں زیادہ تھا ۔
  غزالی مجھے کہنے لگے کہ ایک ہوٹل کے ساتھ ہماری تنظیم کا معاہدہ ہے۔ یہ ہوٹل بڑا اچھا اور سستا بھی ہے ۔دو تین چکر لگانے کے بعد ہم ہوٹل میں پہنچے ۔اہلیہ سے کہا کہ آپ گاڑی میں ہی بیٹھیں، ہم کمرہ بک کروا کر آتے ہیں۔ سنگاپور کے ہوٹل سعودی عرب کی طرح کھلے اور بڑے نہیں ۔ رات کا وقت تھا۔ استقبالیہ پر ایک خاتون آہستہ آہستہ کام کر رہی تھی۔ ہم سے پہلے کسٹمربھی موجود تھے ۔جب ہماری باری آئی اور کمرہ کا پوچھا تواس نے کمپیوٹر چیک کرنے کے بعد بتایا کہ سوری! آج ہمارے پاس کوئی کمرہ خالی نہیں ۔بڑی مایوسی ہوئی۔غزالی کہنے لگا کہ اب کیا کریں؟ میں نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس محمدیہ کے مہمان خانے کی چابی ہے؟ اس نے سینے پر ہاتھ مار کرکہا :یہ دیکھو چابی میری جیب میں ہے۔ اگرچابی میرے پاس نہ ہو گی تو کس کے پاس ہوگی، آخر میں محمدیہ کا جنرل سیکریٹری ہوں،میں نے کہا فی الحال تو تھکے ہوئے ہیں۔ بھوک بھی زوروں پر ہے۔ آج رات تو مہمان خانہ میں گزارتے ہیں۔ اگر پسند نہ آیا تو کل کوئی ہوٹل تلاش کر لیں گے۔ بیٹا عبدالغفار سعودی عرب کے شہرریاض سے ہی بڑے آرام سے اپنے دفتر میں بیٹھ کر انٹرنیٹ کے ذریعہ ہوٹل کی بکنگ کروا سکتا ہے۔ ہم محمدیہ کے دفتر آئے۔ گرائونڈ فلور پر بڑا معقول کمرہ تھاجس میں2بیڈ لگے ہوئے تھے۔ ایئرکنڈیشنڈ، صاف ستھرا باتھ روم ۔ہمیں تو کمرہ بڑا پسند آیا۔ کچن میں انواع و اقسام کی کافی اورچائے کا سامان پڑا تھا۔ ٹھنڈا گرم پانی اور ساتھ ہی اس نے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ دیکھیں مسجد صبح، سویر ے نمازی آ جاتے ہیں۔رونق شروع ہو جاتی ہے۔ میں نے کہا کہ اور کیا چاہیے دیار کفر میں مسجد کی ہمسائیگی۔ غزالی کو میں نے فارغ کر دیا ۔ آج اس کا کڑیل بدن کام آیا۔ اس نے ہمارے بھاری بھرکم اٹیچی کیس اس طرح اٹھا کر کمرے میں رکھ دیے جیسے فٹبال ہوتے ہیں۔ اگر بھو ک لگی ہو تو پھر کھانے کا مزہ آتا ہے۔ ہم نے کچن کی کھڑکی کھول دی۔ ہوا کے جھونکے آرہے تھے، کھانا بہت ٹھنڈا نہ تھا۔ ایک منٹ میں چائے بن گئی۔ لبنانی کھانا وہ بھی سنگاپور کی سرزمین پر، اللہ کا لاکھ لاکھ شکرادا کیا۔ صبح سویرے ہم حسب معمول اذان سے پہلے اٹھ گئے ۔میں نے بابا گوگل سے سنگاپور میں نمازوں کے اوقات پوچھے۔ چند سیکنڈ میں نمازوں کے اوقات میرے فون کی اسکرین پر تھے۔ رات میں مسجد نہ دیکھ سکا تھا۔ صبح نماز سے پہلے مسجد کو دیکھا، دل خوش ہو گیا۔ نمازی بھی آگئے تھے۔ میں ایک اجنبی تھا مگر نمازیوں کی مہربانی، انھوں نے جماعت کیلئے مجھے اشارہ کیا کہ آپ نماز پڑھیں گے۔نمازکے بعد تعارف ہوا۔جب میں نے انہیں دارالسلام کے بارے میں بتایا تو ایک صا حب جلدی سے اٹھے۔ ٹیبل پر پڑا ہوا اپنا بیگ کھولا۔اس میں سے دارالسلام کی طبع شدہ حدیث کی کتاب’’ ریاض الصالحین ‘‘نکال کر مجھے دکھائی۔ کہنے لگے کہ میں دارالسلام کی کتب سے بڑی محبت کرتا ہوں ۔میرے گھر میں آپ کی اکثر کتب موجود ہیں۔ موصوف پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ مجھے تعجب ہوا کہ وہ ہر روز فجر کے بعد مسجد میں اشراق تک بیٹھتے ہیں۔ انکے بھانجے سے بھی ملاقات ہوئی جو پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں مگر آج کل اسکول میں پڑھاتے ہیں۔احباب کی طرف سے ناشتہ کا اصرار ہوا ۔کہا کہ ہم آپ کو ناشتہ کرواتے ہیں ہمیں خد مت کا موقع دیں۔ میں نے بتایا کہ ہم نے رات کو لیٹ کھانا کھایا ہے اسلئے فی الحال کوئی گنجائش نہیں۔اشراق کے بعد نیند پور ی کی۔
  صبح ساڑھے 9بجے کے قریب میرے کمرے کے دروازے پر کسی نے دستک دی ۔جناب میں’’ محمدیہ‘‘میں کام کرتا ہوں۔ آپ ہمارے مہمان ہیں۔ میری ڈیوٹی لگی ہے کہ آپ کو ناشتہ کروائوں۔ ناشتہ میں کیا پسند کریں گے؟ہمارے پاس انڈا پراٹھا بڑا مزیدار ہوتا ہے اور بھی چیزیں مل جائینگی۔ میں نے اپنی پسند بتادی۔ میرے فریش ہونے تک کچن میں ناشتہ لگ چکا تھا۔ ایک انڈونیشی خاتون نے چائے کی کیتلی ٹیبل پر رکھتے ہوئے بتایا کہ میں مہمانوں کیلئے خصوصی چائے بنا کر لائی ہوں۔ میں نے اہلیہ سے پوچھا کہ بتائیں یہ جگہ، یہ رہائش ،یہ ماحول کیسا محسوس ہورہا ہے۔ کہنے لگیں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ گویا میںاپنے گھر آگئی ہوں۔ ضرورت کی ہر چیز موجود ہے اس لئے ہوٹل منتقل ہونے کو بھول جائیں۔ تو جناب! اس طرح ہم نے3 راتیں محمدیہ کے ریسٹ ہائوس میں گزاریں۔ میرے لیے اطمینان کا سبب یوں بھی تھا کہ تینوں دن مجھے فجر کی جماعت کروانے کا اعزاز ملابلکہ پہلے دن کو چھوڑ کر دونوں دن اذان بھی دی۔ اس سے زیادہ شرف کی کیا بات ہوسکتی ہے کہ آپ دیارکفر میں اپنے اللہ کا نام بلند کر رہے ہوں۔جماعت کے بعد انگلش میں مختصر درس، کچھ احادیث، کچھ واقعات… بس اللہ قبول کرلے۔
  قارئین کرام! اس سے پہلے کے ہم آگے بڑھیں، آپ کو محمدی ایسوسی ایشن سنگاپور کا تعارف کروانا چاہتا ہوں۔
سنگاپور سے انڈونیشیا زیادہ دور نہیںحتیٰ کہ انڈونیشیا کا ایک جزیرہ سنگاپور سے نظر آتا ہے۔ انڈونیشیا میں سلفی تنظیم کا نام محمدیہ ہے جو 120 سال پہلے بنی تھی۔انڈونیشیا میںاس تنظیم نے بے حد ترقی کی۔ اس تنظیم سے وابستہ رہنے والے کتنے ہی لوگ اب حکومتی عہدوں پر فائز ہیں۔ ان میں سے کچھ وزیر بھی رہے ۔سنگاپور میں محمد یہ تنظیم بھی انڈونیشیا کی اس تنظیم کا ایک حصہ سمجھ لیں۔ آج کل اس کے صدر شیخ حسین یعقوب ہیں۔ اس کے جنرل سیکریٹری محمد غزالی ہیں۔ ان کا منہج اور عقیدہ اہل سنت والجماعت ہے ۔میں مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر جناب پروفیسر ساجد میرصاحب کی طرف سے ان دونوں عہدیداران کیلئے شیلڈیں لے کرآیا تھا۔ کم و بیش 11 بجے  کے قریب دونوں شخصیات محمدیہ کے دفتر میں تشریف لے آئیں۔ ان سے تفصیلی تعارف ہوا۔1957 میںقائم ہونے والی یہ تنظیم خاصی مضبوط اور فعال نظر آئی۔ شیخ حسین یعقوب کی عمر اب 70 سال سے متجاوز ہے، اسکے باوجودوہ خاصے چاک و چوبند نظر آئے۔ ہماری میٹنگ کوئی ایک گھنٹہ جاری رہی۔ اس دوران میں نے انہیںشیلڈ پیش کی جو شکریہ کے ساتھ قبو ل کی گئی۔ محمد غزالی صاحب کی پہلے سے میٹنگ طے تھی اس لیے وہ ہمیں الوداع کہہ کر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد شیخ حسین یعقوب مجھے ہمراہ لے کر محمدیہ کے دفاتر دکھانے لے گئے۔لنچ کے وقفہ کی وجہ سے دفاتر خالی پڑے تھے۔ انہوں نے مجھے خوبصورت دفاتر دکھائے۔ سنڈے اسکول دکھایا۔لائبریری دکھائی، میٹنگ روم ،مختلف شعبے، ان کے ذمہ داران اور کارکردگی سے مطلع فرمایا اور پھر اپنے دفتر میں لے گئے۔ وہاں ہم نے بڑی تفصیل سے گفتگو کی۔ سنگاپور میں مسلمانوں کے مسائل ،حکومت کے ساتھ تعلقات ،دعوت کا طریقہ کار، محمدیہ کے لوگ کیسے کام کرتے ہیں، ان کے کتنے ادارے ہیں، یہ ساری باتیںتھیں جو میں جاننا چاہتا تھا۔ میں ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔
  ہماری میٹنگ خاصی دیر تک جاری رہی۔ شیخ حسین یعقوب کی باتیں بڑی مزیداراور مفید تھیں۔ انہیں محمدیہ سنگاپور کی صدارت کرتے ہوئے 22 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے مستقل رجسٹرڈ اراکین کی تعداد 2ہزار سے زائد ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیں ماہانہ بنیادوں پر چندہ دیتے ہیں۔ اب اگروہ سنگاپوری100 ڈالربھی ماہانہ چندہ دیتے ہیں تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ دفتر کے اخراجات اسی سے نکل جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ  وہ سالانہ پروگرام کرتے ہیںجس میں لوگوں کی بڑی تعداد شرکت کرتی اور مالی تعاون کرتی ہے۔ انہوں نے جو سالانہ بجٹ بتایا وہ حیران کن تھا۔ میرا اندازہ ہے کہ ان کے پاس وقف املاک بھی ہیں جن سے ان کے اخراجات پورے ہوتے ہیں ۔
میرا ایک سوال یہ بتائیں کہ آپ نے تنظیم میں متعدد کام کیے اور کر رہے ہیں۔ آپ لوگوں نے سب سے اہم کام کیا کیا ہے۔ ان کے جواب نے مجھے خوش کر دیا ۔کہنے لگے کہ ہم نے شروع دن سے قرآن پاک کی تعلیم پر زور دیا ہے۔سنگا پور میں بے شمار مسلمان ہمارے اداروں اور حلقاتِ قرآنیہ سے قرآن پاک پڑھتے ہیں۔ یہاں دیگر مسالک کے لوگ بھی خاصی تعداد میں رہتے ہیں۔ مذہبی آزادیاں ہیں ۔جہاں مساجد اور دینی مدارس ہیں،وہاںہندوئوں اور سکھوں کی عبادت گاہیں بھی ہیںمگر ہمارا ہدف اول قرآن کریم کی تعلیم ہے۔اپنے بیگانے سبھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ محمدیہ نے لوگوں کو قرآن پاک کی تعلیم دی ہے اور ہم انہی کے مقرر کردہ اساتذہ سے قرآن پاک پڑھے ہوئے ہیں۔
سنگاپور میں مجھے دعوت کے ساتھ دارالسلام کے پرانے اور نئے ڈسٹری بیوٹرز سے بھی ملنا تھا۔ ایک زمانے میں یہاں پر اسلامی کتب کی کھپت خاصی زیادہ تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی چلی گئی۔ سفر کے دوران مختلف علاقوں میں مکتبات کے مالکان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ الحمدللہ میرے لئے باعث اطمینان بات تھی کہ کم و بیش ہر مکتبہ میں دارالسلام کی کوئی نہ کوئی کتاب موجود تھی۔
  برادر محمد غزالی مجھے مختلف اداروں میں لے گئے۔ انہوں نے دارارقم کی بلڈنگ کے سامنے اتارا اور کہنے لگے کہ یہ رہا آپ کا ادارہ دارارقم۔ یہ لوگ بے شمار لوگوں کو مسلمان کر چکے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہاں اوسطاً ہر روز 2 آدمی اسلام قبول کرتے ہیں۔میں نے اپنی زندگی میں اسلام کی دعوت دینے والی اتنی خوبصورت عمارت کم ہی دیکھی ہو گی۔ میں گزشتہ اسفار میں بھی ان کے پاس آیا تھا مگر اس وقت ان کا دفتر بہت چھوٹا سا تھا مگر اب 3 منزل پر مشتمل یہ دفتر بڑا صاف ستھرا اور خوبصورت ہے۔ اسکے ساتھ وسیع و عریض پارکنگ میں پچھلے دروازے سے داخل ہوا۔ بلڈنگ کی ایک ایک دیوار ،ایک ایک کمرہ گواہی دے رہا تھا کہ اس کی انتظامیہ اعلیٰ ذوق کی مالک ہے۔ استقبالیہ بہت ہی خوبصورت ،سجا ہوا نیا فرنیچر ،دیواروں پر قیمتی شیلف اور ان میں کتابیں بڑے سلیقے سے رکھی ہوئی تھیں۔
میں نے کتابوں کی طرف دیکھنا شروع کیا۔اپنے ادارے کی کتابوں کو میںاسی طرح پہچانتا ہوں جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں۔میں نے دور سے دارالسلام کی کتب دیکھ لیں۔ الحمدللہ اس ادارے کے استقبالیہ میں بھی ہماری کتابیں پڑھی ہیں ۔
مکتبہ کا دروازہ آدھا بندتھا۔ معلوم ہوا کہ آجکل وہ سالانہ اسٹاک گن رہے ہیں۔ میں نے منیجر کا پوچھا تو ایک بڑا خوبصورت نوجوان نے میرے ہاتھوں کو تھام لیا۔ اپنا تعارف کروایا تو بڑا جذباتی اور خوش ہوگیا۔ ساتھ والے کمرے میں لے گیا۔ یہ ایک طرح کا میٹنگ روم تھا۔ کافی دیر تک باتیں ہوتی رہیں ۔ہر چند کے کتابوں کی سیل پہلے جیسی نہیں رہی مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کتابوں کادور ختم ہوگیا ہے۔ لوگ آج بھی اچھی کتاب کو پسند کرتے خریدتے اور پڑھتے ہیں۔ جنید نامی نوجوان مجھے اوپر لائبریری میں لے گیا ۔وہاں کی ذمہ دار ایک خاتون تھیں۔ اس نے مجھے دارالسلام کی کتب دکھائیں۔ ہماری کتابوں کی تعریف کی۔ مجھے خوشی ہوئی کہ وہاں کی مقامی زبان میں بھی اسلامی کتب خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ ایک چینی آگئے۔ جب تعارف ہوا تو وہ دارالسلام کے بڑے فین نکلے۔ بڑے جذباتی ہوئے۔ کتنے ہی مفید مشورے دے ڈالے۔
(جاری ہے)

شیئر: