دہشت گرد گروپوں کا خطرہ ٹلا نہیں
کراچی ( صلاح الدین حیدر) پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹیڈیز کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنگ میں 29 فیصد کمی ہونے کے باوجود ابھی تک طالبان کے مختلف گروپ اور داعش کے ٹھکانے ملک کیلئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان سیکیورٹی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسے کئی گروپ ملک کے علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان سے قومی ایکشن پلان کے تحت محاذ آرائی کی بجائے پرامن طریقے سے بات چیت کے ذریعے پاکستان سے باہر جانے کو کہا جائے ورنہ بلوچستان میں ہونے والے دو حالیہ واقعات پھر سے دہرائے جاسکتے ہیں۔ بات چیت کرتے وقت ملکی مفاد اور جدید طریقے سے نمٹا جائے تاکہ امن و امان پر الٹا اثر نہ پڑے۔ یاد رہے کہ سابق سیکرٹری خارجہ تمہینہ جنجوعہ نے بھی چند مہینے پہلے داعش کی پاکستان میں موجودگی کا اعتراف کیا تھا۔ ان دہشتگردوں نے سال گزشتہ میں ملک میں مختلف مقامات پر 262 حملے کئے جس میں 19 خودکش اور بندوقوں سے حملے شامل ہیں۔ ان حملوں میں مرنے والوں کی تعداد 595 ہے۔ دہشتگردوں میں مذہبی جنونی گروپس شامل ہیں جن پر سیکیورٹی ایجنسی کو خاص نظر رکھنی چاہیے۔
اعداد و شمار کے مطابق 262 میں سے 171 حملے طالبان نے کئے جو افغانستان سے سرحد پارکر کے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ پچھلے کئی مہینوں سے آرمی نے پاک افغان سرحد پر حفاظتی حصار بنانا شروع کیا ہوا ہے لیکن دونوں طرف سے لوگ پھر بھی طویل پہاڑی راستوں سے جن پر 24 گھنٹے نظر رکھنا تقریباً ناممکن ہے گزر کر یک دوسرے کی سرحدوں میں ہر روز ہی داخل ہوتے رہتے ہیں۔ آرمی کی سرحدی حفاظتی پٹی سے ان کی نقل و حرکت میں خاصی کمی آئی ہے لیکن پوری طرح اسے روکنا پھر بھی محال ہے۔
شدت پسند گروپس میں جماعت الحرار، حزب الحرار اور دوسرے دہشتگرد تنظیمیں شامل ہیں۔ قوم پرست تنظیمیں علیحدہ ہیں جو سندھ اور بلوچستان میں دہشت پھیلاتے رہتے ہیں ان کے مقاصد ملکی سلامتی اور استحکام کو خطرات سے دو چار رکھنا ہے۔ 136 سے زیادہ حملے سیکیورٹی ایجنسیز، آرمی اور آئی ایس آئی کے دفاتر یا ان کے عملے پر ہوئے۔ ہندوستان اور ایران سے بھی یہ گروپ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، جنہیں روکنا ایک درد سر ہے۔ پھر بھی افواج پاکستان کو کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کے نیٹ ورک کو توڑنے میں خاصی قربانیوں کے باوجود توقعات سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے۔