Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ

ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔مکہ مکرمہ٭٭٭***
اللہ تعالیٰ جل جلالہ احکم الحاکمین اور اصدق القائلین اپنے معجز کلام قرآن کریم میں مہبط قرآن حضرت خاتم النبیین وسید المرسلین جناب محمد رسول اللہ کو یوں مخاطب ہوتے ہیں :
وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین۔
’’اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کیلئے رحمت۔‘‘
خالق مطلق کا یہ اسلوبِ خطاب بلاغت کی اصطلاح میں حصری بیان کہلاتاہے، جو مضمونِ خطاب اور اس میں بیان کردہ عنوان کے بیان کیلئے اپنی خصوصی بلاغی قوت بیان کا حامل ہوتاہے ۔
باری تعالیٰ جل شانہ کے مہبط قرآن جناب محمد رسول اللہ کی رسالت وبعثت کو جہانوں کیلئے رحمت ہونے کیساتھ محصورفرمادیا کہ آپسراپا رحمت ہیں اس کے علاوہ نہیں اور اس رحمت سے تمام عالمین میں سے کسی کا استثناء بھی نہیں۔
اس قوت قرآنی سے آپ کے مقام ِرسالت وبعثت کی عظمت کا بیان یقینا اس امر کا تقاضا کرتاہے کہ علمائے امت اپنے علوم کو اور خطبائے امت اپنے خطبات کو اور ادباء اپنی ادبی کاوشوں کو اور مقررین اپنی تقاریر کو اس حسین وجمیل عنوان سے ضرور زینت بخشیں اور رحمتِ رحمت للعالمین کو موضوعِ سخن بناکر کائنات خالق اور کون ومکان کے تمام عالموں کو رحمتِ رحمت للعالمین کے انوار سے منور اور اس کی خوشبو سے معطر کرتے کرتے راہِ سعادت کو سدھارجائیں۔
اپنے آئندہ کے بعض مقالات کو ہم باری تعالیٰ کے اس ارشاد گرامی اور حسین وجمیل خطاب میں موجود مبارک کلمات کی شرح وتفسیر کیلئے وقف کرتے ہوئے اسے باعث سعادت اور باعث فخر وانبساط سمجھتے ہوئے عرض کرتے ہیں:
قرآن کریم میں مہبط قرآن کے نام متکلم قرآن کے اس حصری یا قصری خطاب کے مخاطب،یقینا فخر کائنات، سید المعصومین ،اشرف الرسل ،حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،جن کا مقام ِ عالی ’’بعد از خدا توہی قصہ مختصر ‘‘ہے ۔
خود باری تعالیٰ نے’’ ورفعنا لک ذکرک‘‘ کی نص قطعی سے مہبط وحی سید الرسل اور خاتم النبیین کے مقام ا علیٰ کے رفع ہونے کا حتمی فیصلہ فرمادیا اور آ پ کے مقامِ رسالت وبعثت کو رحمت للعالمین میں محصور یوں فرمایا کہ وہ جملہ جہانوں کیلئے محض رحمت ہی ہیں ۔اس کے علاوہ اور نہیں ۔
ہم اب اولاً لفظ’’ عالمین ‘‘ پر گفتگو کرتے ہیں ، جس کیلئے حضرت محمد رسول اللہ کو  رحمان نے رحمت بنایا ہے۔
اس کی شرح وتفسیر میںمناسب ہوگا کہ باری تعالیٰ کے اس ارشاد گرامی: الحمد للہ رب العالمین ۔ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو عالمین کے پروردگار ہیں۔وہاں سے لفظ ِ عالمین کی تفسیر کا مطالعہ کریں،اس لئے کہ عالمین ہی حضرت رحمت للعالمین کی رحمت کا  نص قرآن دائرہ ہے اور قرآن کریم نے رب تعالیٰ کی ربوبیت کا دائرہ بھی العالمین کو قراردیا ہے ۔
’’ عالمین ‘‘کیلئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت بناکر بھیجا ہے ، اس میں علمائے تفسیر کے متعدد اقوال ہیں۔
¤  ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وما ارسلناک یا محمد الی خلقنا الارحمۃ لمن ارسلناک الیہ من خلقی۔
’’ اے محمد! ہم نے آپ کو اپنی مخلوقات میں جس کی طرف مبعوث کیا ہے آپ میری اس مخلوق کیلئے رحمت ہیں۔
پھر اس امر میں اہل تفسیر میں اختلاف ہے کہ کیا آپ عالم کے مؤمنین وکافرین سبھی کیلئے رحمت ہیں یا آپ فقط مؤمنین  کیلئے رحمت ہیں ؟ 
بعض کہتے ہیں کہ آپ کی رحمت ،عالم کے سبھی انسانوں کیلئے عام ہے ۔وہ مؤمن ہو یا کافر۔ 
¤  حضرت ابن عباسؓ  فرماتے ہیں : جس شخص نے اللہ اور آخرت پر ایمان لایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے دنیا وآخرت میں رحمت لکھ دی اور جو اللہ اور رسول پر ایمان نہ لایا وہ بھی آپ کی رحمت کے سبب اس دنیا میں زمینی خسف اور آسمانی قذف سے محفوظ رہے ہیں۔
مذکورہ نصِ قرآنی کا بیان اس امر کا متقاضی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عالمین کیلئے رحمت بناکر مبعوث فرمایا ہے ،تواس میں اہل ایمان کی تخصیص نہیں بلکہ آپ کی رحمت  سے عالمین کے سبھی مؤمن وکافر فیض یاب ہورہے ہیں۔
رہے اہل ایمان تو ان کیلئے رحمت یہ ہے کہ وہ آپ کی وجہ سے دولت ایمان وہدایت سے مالا مال اور عمل صالح کے حسین وجمیل زیور سے آراستہ ہوئے، پھر آپ کی بعثت کی وجہ سے کرۂ ارض پر اللہ تعالیٰ کی عمومی گرفت جیسے کہ امم سابقہ کو کلی طورپر ہلاک کرتی رہی ۔وہ اس سے آپ کی عمومی رحمت کے باعث محفوظ رہے ۔
¤  ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کی رحمت تو آپ کے دشمنوں پر بھی رہی کہ آپ نے اپنے مخالفین کی کبھی  بھی جلد پکڑ نہیں چاہی ۔
نیز قرآن کریم میں یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ کفار نے کہا: اے اللہ! اگر یہ آپ کی طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسادیں یا دردناک عذاب دیں، تو باری تعالیٰ نے ان کے رد میں فرمایا کہ حق تعالیٰ ان کفار کو جب تک آپ() ان کے درمیان ہیں عذاب نہیں دیں گے اور نہ اس وقت تک عذاب دیں گے جب تک وہ طالبِ مغفرت ہوں۔
¤  ’’رحمت للعالمین ‘‘ کی تاویل میں رشید رضا کہتے ہیں :اللہ تعالیٰ کی شان اور سنت اور اس کی رحمت وحکمت کاتقاضا یہ نہیں کہ وہ ذات عالی انہیں عذاب دیں اور اے رسول اعظم !آپ اُن کے درمیان موجود ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو ہم نے رحمت للعالمین بنایا ہے ۔آپ ان کیلئے نعمت ہیں نقمت اور عذاب نہیں ۔
بلکہ اقوام ِگزشتہ اور امم ِسابقہ میں بھی باری تعالیٰ کی سنت یہی رہی کہ وہ اپنے رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کو اس وقت تک سزا  نہ دیتے تھے جب تک وہ ان میں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ پہلے اہلِ کفرو تکذیب سے انبیاء کو دور کرلیتے پھر ان پر اپنا عذاب نازل کرتے ۔
معزز قارئین ! ہم اور آپ نبی رحمت کی سیرت مطہرہ میں اس عظیم موقف میں کچھ تامل کریں کہ اہل طائف نے نہ صرف آپ کی تکذیب کی بلکہ تکلیف واذیت پہنچانے کی حد کردی۔ وہ بھی صرف اس بات پر کہ آپ نے انہیں توحید باری تعالیٰ کی دعوت دی۔ آپ نے ان سے کچھ اور طلب نہیں فرمایا۔
امام بخاری نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ حضرت ام المؤمنین نے حضرت رحمت للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آپ پر کوئی دن اُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا؟ تو آپ  نے اس پر فرمایا:
’’ تمہاری قوم(قریش) کی طرف سے میں نے بہت مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا ۔یہ وہ موقع تھا جب میں نے(طائف کے سردار) کنانہ بن عبد یا لیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھالیکن اس نے میری دعوت کو رد کردیا ۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہوکر واپس ہوا ۔پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا تب مجھ کو کچھ ہوش آیا۔میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتاہوں کہ بادل کے ایک ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کیا ہوا ہے اور میں نے دیکھا کہ( حضرت )جبریل (علیہ السلام)اس میں موجود ہیں ۔انہوں نے مجھے آواز دی اور کہاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے رد کیا ہے وہ بھی سن چکا۔ آپ() کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے ۔آپ() ان کے بارے میں جو چاہیں اسے حکم دیں۔اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی ۔انہوں نے مجھے سلام کیا ۔ اور کہا اے محمد() ! پھر انہوں نے بھی وہی بات کہی۔آپ ()جو چاہیں مجھے حکم دیں۔اگر آپ() چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لاکر ملادوں ۔اس پر میں نے کہا کہ مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ انکی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کریگی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔‘‘
یہ تھی نبی رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے شدید ترین اذیت دینے والے دشمنوں کیلئے رحمت وشفقت ۔آپ اُن سے نے نہ صرف انتقام نہیں لیا بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی ان کیلئے رحمت کی دعا فرمائی ۔
¤  امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم باوجود یکہ وہ بہادری  کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے مگر آپ نے پوری زندگی میں صرف امیہ بن خلف ایک فردِ واحد کو قتل کیا اور اس کا قتل احد کے دن ہوا جس کے بعد یا پہلے آپ نے کسی کو قتل نہیں کیا۔
رہا امیہ بن خلف تو اس کی اسلام دشمنی اور پیغمبر اسلام سے بغض وعناد کی باری تعالیٰ اسے شدید سزا دینا چاہتے تھے کہ اس کا قتل رحمت للعالمین کے ہاتھوں مقدر فرمایا۔
امام بخاری نے یہ روایت اپنی صحیح میں نقل کی ہے کہ اللہ کے عذاب وغضب کا سب سے بڑھ کر حقدار وہ ہو جسے نبی قتل کرے یا وہ نبی کو قتل کرے،تو رحمت للعالمین کے ہاتھوں امیہ بن خلف کا قتل یہ شارع حکیم کی حکمت تھی تاکہ امیہ اللہ تعالیٰ کے شدید غضب کا  مستحق ٹھہرے۔
جہاد جیسا عظیم دینی فریضہ جو تاقیامت جاری رہے گا اور آنحضرت نے اسے شروع ومشروع فرمایا ۔ اسکے وجوب اور حضرت شارع علیہ السلام کے رحمت للعالمین ہونے میں کوئی بھی منافات نہیں بلکہ ان میں انتہائی مناسبت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب بنی بشر کی سعادت ورحمت کیلئے شریعت مطہرہ نبی خاتم کو عطا فرمائی تاکہ اللہ کا نور اور رحمت پوری انسانیت میں پھیل جائے  تو پھر اس نور کے پھیلنے میں رکاوٹ بننے والے اور دعوتِ رحمت للعالمین کے راستے کے کانٹوں کو اکھاڑ پھینکنا ، یہ خود انسانیت کیلئے عین ِ رحمت ہے۔
اسی لئے تو باری تعالیٰ نے حضرت رحمت للعالمین کو حکم دیا : اے نبی! کفار ومنافقین سے جہاد کریں اور ان کیلئے شدت اختیار کریںکیونکہ یہ اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیںاور اللہ تعالیٰ اپنے نور کا مکمل طورپر کائنات ِبشری میں اتمام چاہتے ہیں۔
یہ رحمت العالمین کی انسانیت کیلئے رحمت ہے کہ وہ اللہ کی رحمت اور اللہ کے نور میں داخل ہونے والوں کیلئے راستہ ہموار کرنے کیلئے کوشاں رہیںاورجہاد کریں تاکہ انسانیت اللہ کی رحمت سے محظوظ ہو اور وہ اللہ کے نور ہی میں حیات مستعار بسر کرکے کمال سکون و راحت سے اپنی حیاتِ دنیوی کو گزاریں۔
اللہ کی راہ میں آنحضرتکا عملِ جہاد عین رحمت ہے ۔ ذات رحمان ورحیم اسی پر تعجب فرمانے لگے۔حضرت ابوہریرہ روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ ہمارا رب عز وجل اس قوم پر تعجب کرنے لگا جو جنت کی طرف پابندِ سلاسل ہوکر جارہے ہیں۔‘‘( بخاری) ۔
اسی طرح قرآن کریم میں باری تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : کنتم خیر امۃ أخرجت للناس۔’’ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے نکالی گئی‘‘ ۔
حضرت ابوہریرہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں : 
’’تم بہترین امت ہو ، لوگوں کو نفع پہنچاتے ہو حتیٰ کہ بہت سے لوگ مغلوب ومقہور ہوکر تمہارے پاس پابندِ سلاسل ہوکر آتے ہیں ،پھر جب وہ مسلمانوں کے ساتھ رہ کر محاسنِ اسلام پر مطلع ہوتے ہیں تو اپنے اختیار سے شریعتِ رحمت للعالمینمیں داخل ہوکر ارحم الراحمین کی جنت کے مستحق ہوجاتے ہیں۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ حضرت رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری شریعت کے تمام احکام ، وہ عقائد سے متعلق ہوں یا عبادات کے  ہوںیا انسانوں کے ساتھ معاملات کے ، وہ سراسر رحمت ہی رحمت ہیں ۔اسلامی شرائع پر عمل کی لذت جو عمل کرنے والوں کو حاصل رہتی ہے ۔ دنیا کی دیگر نعمتوں ، کھانے پینے، پہننے، رہنے سہنے، کی تمام لذات سے اعلیٰ ہوتی ہے اور سب کا اصل منبع ومصدر اور سرچشمہ حضرت رحمت للعالمین کی لائی ہوئی شریعت ہے جو تمام بنی بشر کے لئے رحمتِ عامہ ہے۔ 
ہم ان شاء اللہ رحمت ِ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی وسعتوں پر مفصل گفتگو اپنی آئندہ کی مجالس میں کریں گے۔
 
 
 
 
 

شیئر: