Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئی زندگی کا آغاز بہت ذمہ داری کا کام ہے،عاصمہ گل

 
زینت شکیل۔جدہ
   مالک الملک جسے چاہے اسے عزت و عظمت عطا فرمادے جس شخص کے لئے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا یعنی دعا مانگنے کی توفیق دے دی گئی ۔اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم سے نقل کیا ہے کہ کلام اللہ کوآواز سے پڑھنے والا علانیہ صدقہ کرنے والے کے مشابہ ہے اور آہستہ پڑھنے والا خفیہ صدقہ کرنے والے کی مانند ہے ’ ’بخاری شریف“
    دنیا میں ترقی حاصل کرنے کا پیمانہ مسابقت کی دوڑ میں آگے نکلنے کا نام ہے۔ کسی ملک کی ترقی جدیدٹیکنالوجی کا حصول مان لیا گیا ہے۔ اسی سلسلے میں ہماری گفتگو ہوا کے دوش پر محترم گل رحمان میمن اور انکی اہلیہ محترمہ عاصمہ گل سے ہوئی۔ رحمان میمن ڈاکٹر ہیں ۔مقامی اسپتال میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ محترمہ عاصمہ گل کا خواب تھا کہ وہ کسی کالج کی لیکچرار بنیں اور جب اس کا موقع ملا تو ان کے والد نے مشورہ دیا کہ تمہیں ایک ایک سیڑھی طے کرنے کے بعد بلندی تک پہنچنا چاہئے ۔اس طرح انسان بہت کچھ سیکھتا ہے جو اس کے تعلیمی اور تدریسی شعبے میں کام آتا ہے۔
  محترمہ عاصمہ گل صاحبہ نے بیچلرز اسلام آباد یونیورسٹی سے مکمل کیا ۔کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے بچپن کی باتیں ان کی یادداشت میں تازہ ہیںکہ کس طرح پاکستان انٹرنیشنل اسکول میں نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتے تھے ۔امتحان کے دنوں میں رات دن پڑھائی کرتے تھے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہوتا تھا کہ کلاس میں پہلی پوزیشن لے آئیں۔عاصمہ گل کا کہنا ہے کہ بچپن بہت یادگار ہوتا ہے۔ جب بچے چھوٹے ہوتے ہیں تو تعلیم کے حوالے سے سوچا جاتا ہے کہ ابھی تو یہ ناسمجھ ہیں بڑے ہونگے تو سمجھ جائیں گے لیکن بچوں کے لئے یہی وقت سیکھنے کا ہوتا ہے اور جہاںبچہ مروجہ تعلیم سے بہت کچھ سیکھتا ہے وہیں تربیت بھی بہت اہمیت رکھتی ہے ۔اس میں بھی تعلیم ہی حاصل کرتے ہیں بلکہ کسی دانشور کا کہنا ہے کہ انسان کی تعلیمی کمی پوری ہو سکتی ہے لیکن تربیت کی کمی ساری زندگی موجود رہتی ہے۔
    محترمہ عاصمہ نے اپنے بارے میں بتایاکہ بچپن میں پوری محنت کے باوجود اسکول میں کئی سال تک سیکنڈ پوزیشن لیتی رہی اور فرسٹ پوزیشن کے لئے ہمیشہ ایک نمبر کی کمی رہ جاتی تھی کبھی میں خود بھی افسردہ ہوجاتی تھی۔ میرے والد مجھے یہی بتاتے تھے کہ بعض چیزیں قسمت کا حصہ ہوتی ہیں اور یہ ایک نمبر سے کسی کی ذہانت کو پرکھانہیں جاسکتا بلکہ یہی بات درست ہے کہ ذہانت فرسٹ اور سیکنڈ پوزیشن دونوں کی یکساں ہوتی ہے۔
     جناب گل رحمان کا کہنا ہے کہ عاصمہ بہت محنتی اور بڑے دل کی مالک ہیں ۔ وہ ایک اچھی معلمہ ہیں۔ اپنے اسٹوڈنٹس کے لئے ہمیشہ یہی چاہتی ہیں کہ اگر کوئی اسٹوڈنٹ کسی وجہ سے تعلیمی مسائل کا شکا ر ہے تو اسکی کاﺅنسلنگ بھی کی جائے اور جو یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ اچھا رزلٹ نہیں لاسکتے، انہیں عاصمہ یہی بتا تی ہیں کہ جب آپ نے پوری محنت سے امتحان دے دیا تو چند ایک نمبر کی کمی بیشی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سب ہی اچھے نمبر لائیں یہ ممکن ہے لیکن سب فرسٹ پوزیشن لے آئیں یہ ممکن نہیں۔ یہ تو ایک طریقہ ہے لیکن اس سے طلبہ و طالبات کی ذہانت کو جانچا نہیں جاسکتا۔
     گل رحمان اپنی اہلیہ کے لئے تشکر کے جذبات رکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے نہ صرف درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھاہوا ہے بلکہ وہ بچوں کی بھی بہترین دیکھ بھال کر رہی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ صاحبزادے ماذن اور زیان اپنے اسکول میں بہترین کارکردگی کے باعث اچھا رزلٹ لاتے ہیں اور اور سب سے چھوٹے صاحب زادے حمدان اپنی والدہ کو بہت مصروف رکھتے ہیں ۔ڈاکٹر ہونے کے باعث وہ اس بات کو اہمیت دیتے ہیں کہ بچوں کو فریش کھانا گھر پر بنا کر دینا چاہئے۔ باہر کا کھانا کبھی کبھار ہی کھانا چاہئے۔ جنک فوڈ اکثر صحت کے بنیادی مسائل کی وجہ بنتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ عاصمہ صاحبہ اس بات کی خواہش رکھتی ہیں کہ جس طرح انہوں نے اپنا بچپن گزارا کہ اکثر ویک اینڈ پر عمرہ کی ادائیگی کے لئے سفر کی توفیق ملتی رہی، ایسا ہی بچپن انکے بچے بھی گزاریں جو ایک یادگار بن جائے۔
    محترمہ عاصمہ گل نے بچپن کے ایک واقعے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب میں اسکول میں تھی تو اسکول کی جانب سے منعقد کئے جانے والے پروگرام میں تقریری مقابلے میں حصہ لیا۔ مجھے استاذہ نے بتایا کہ تقریر تین منٹ کی ہوگی۔دیئے گئے مقررہ وقت کے مطابق میں نے تیاری کی۔ اب کئی دنوںتک پریکٹس نیز کئی بار دہرائے جانے کی وجہ سے اور اس ٹینشن میں کہ کہیں میری تقریر دئیے گئے وقت سے زیادہ طویل نہ ہو جائے ، وہی تقریر جو شاید تین منٹ سے زائد وقت میں مکمل ہورہی تھی،کم وقت میں مکمل ہونے لگی ۔ یہاں تک کہ اسٹیج پر جا کر میری تقریر میں اتنی روانی آگئی کہ یہ ایک منٹ میں ہی مکمل ہو گئی۔
    اسلام آباد کی یونیورسٹی سے آن لائن ایم بی اے کرنے والی عاصمہ گل نے کہا آج خواتین وقت کا بہت درست استعمال کر سکتی ہیں
 جس طرح آن لائن پڑھائی ممکن ہو گئی ہے اسی طرح بہت ساری راہیں معاشی ترقی کی بھی کھل گئی ہیں۔ میری کئی سہیلیوں نے آن لائن آرٹ اینڈ ہینڈی کرافٹس کے سلسلے میں بزنس میں نہ صرف ایک نئی جہت کا اضافہ کیا ہے بلکہ اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ صرف آرٹس پڑھ کر کیاکیاجا سکتا ہے ۔بلا شبہ جب آپ کوشش کرتے ہیں تو ہر فیلڈ میں ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔
 اسے بھی پڑھئے:میاں بیوی کے رشتے میں اناشامل ہو تو زنگ لگ جاتا ہے ، غوثیہ جاسم
  حیدرآباد، سندھ کی یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کرنے کے بعد عاصمہ گل نے اپنی ٹیچرز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہی فیصلہ کیا کہ انہیں بھی اس مقدس شعبے کو اپنانا چاہئے کہ جہاں اپنے لوگوں کو بتایا جاسکے کہ جب ہم اس دنیا سے واپس جائیں تو اپنے لئے ایسا کیا کچھ کریں کہ جو ہمارے لئے صدقہ جاریہ بن جائے اور اس کے لئے سب سے پہلے علم کا حصول اورپھر مفید علم کو دوسروں تک پہنچانا ہے ۔ جیساوالدین عمل کرتے ہیں وہی بچے سیکھتے ہیں اور یہی بچے والدین کے لئے صدقہ جاریہ بن جاتے ہیں اور ایسا عمل جو عوام کے لئے نافع ہو جیسا کہ مسجد کی تعمیریا مسافر خانہ قائم کرنا، دینی کاموں کے لئے ٹرسٹ بنادینا ، شجر کاری کو شوق نہیں بلکہ فرض سمجھ کر کرنا کہ جب تک درخت لوگوںکو سایہ فراہم کرے گا ،لوگ اس کے پھل کھائیں گے اور مسافر اس کی چھاﺅں میں آرام کریں گے اور پرندے اس پر اپنا گھونسلہ بنائیں گے ،اجر جاری رہے گا ۔
    ہم لوگ اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کراتے ہی مسابقت کی دوڑ میں شامل کردیتے ہیں ۔یہ بات معاشرے میں اتنی زیادہ سرایت کر گئی ہے کہ آپ اگر اس بات کے علاوہ کوئی بات کریں تو لوگ کہیں گے کہ اس طرح صحت مند رجحان پیدا ہوتا ہے لیکن یہ بات کسی حد تک مانی جاسکتی ہے تاہم یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ نمبرز کوئی کرائٹیریا نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ نے اپنی کلاس میں کیا کچھ سیکھا اور زندگی میں اپنایا۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی مناسب ہوگا کہ ہم لوگوں نے آج بھاری بھرکم کتابوں کو تعلیم کے حصول کے لئے لازمی قراردے دیا ہے جبکہ اس بارے میں ماہرین کی ایک رپورٹ بھی آئی ہے کہ اس کی وجہ سے بچوں کو ریڑھ کی ہڈی میں درد کی شکایت پید اہو رہی ہے جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔
    سندھ کے علاقے ڈیپلو سے تعلق رکھنے والی عاصمہ گل صاحبہ نے اپنے حیدرآبادی رسم و رواج کے بارے میں بتایا کہ جہاں مایوں میں دلہن کو پیلا جوڑا پہنایا جاتا ہے، رسمیں ہوتی ہیں، وہاں یہ بات سب سے پسند یدہ ہے کہ جب دلہن رسم کے لئے اسٹییج پر مہندی والے دن آتی ہے تو اس دن دوپٹے کے اوپر بڑا کپڑا اوڑھا دیا جاتا ہے اور اس میں ہی رسمیں ہوتی ہیں۔ مٹھائی کھلانا اور دعا دینا، مہندی لگانا اور
 پرانے مقامی شادی بیاہ کے گیت گانا۔ اس دن دلہن کی کوئی ایسی تصویر نہیں لی جاتی جس میں اس کا چہرہ کھلا ہو۔
     محترمہ عاصمہ گل نے بتایا کہ جب تک شوہر کا تعاون حاصل نہ ہو، کوئی خاتون اپنی جاب برقرار نہیں رکھ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ڈاکٹر گل رحمان کے بارے میں بتا رہی تھیں کہ اکثر گھروں میں سنا جاتا ہے کہ دونوں میاں بیوی جاب کرتے ہیں لیکن گھر کے سارے کام عورت کے لئے ہی سمجھے جاتے ہیں ۔شوہر جاب سے آئے ہیں تو وہی تھکے ہوئے ہیں۔ گھر کے کسی کام میں ہاتھ نہیں بٹائیں گے لیکن ڈاکٹر صاحب اس سلسلے میں بہت ہی کو آپریٹو ہیں بچوں کے ساتھ وقت گزارنا انہیں اچھا لگتا ہے ۔کہیں کانفرنس ہو، سیمینار ہو تو واپسی پر بچوں کا ہوم ورک ضرور چیک کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے کام نہ کیا ہو تو مکمل کرواتے ہیں۔ جب گھر میں دونوں افراد بچوں کی دیکھ بھال اور انکی تربیت کی فکر کرتے ہیں تو گھر اور جاب دونوں ساتھ ساتھ آسانی سے چل سکتے ہیں۔ عاصمہ گل نے بتایا وہ ذہین اسٹوڈنٹس کی تعریف تو سنتی رہتی ہیں لیکن بحیثیت معلمہ اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ کسی بھی طالب علم کے لئے اپنے ٹیچر کی طرف سے کہے جانے والے الفاظ کتنا اثر رکھتے ہیں۔ میں جب اسکول میں پڑھایا کرتی تھی تو کئی طالبات کو دیکھتی تھی کہ وہ محنت سے ذہانت کی برابری کر لیتی تھیں ۔ایک طالبہ کلاس میں میتھس میں صد فیصد نمبرحاصل کرتی تھی لیکن جب امتحان ہوتا تووہ بہت کم سوالات کے جوابات درست دے پاتی تھی۔ایک دفعہ میں نے اسے اپنے آفس میں بلایا اورپوچھا کہ تم اتنی ذہین ہو پھر رزلٹ کیوں اچھا نہیں آتا ؟اس نے جواب دیاکہ جب میں امتحان کے لئے جاتی ہوں تو بس مجھے ایسا لگتا ہے کہ مجھے کچھ نہیں آتا۔ جو آتا تھا وہ بھی بھول گیا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ تم بہت ذہین ہو ۔بس تم یہی سوچا کرو کہ مجھے سب کچھ آتا ہے۔ دعا مانگا کرو اور امتحان میں کامیابی کا یقین بھی کرو۔معلوم ہوا اسے ان مضامین میں دلچسپی نہیں تھی اس لئے یہی سوچ ہوتی تھی کہ فیل ہی ہونا ہے لیکن جب دلچسپی لی تو اچھا رزلٹ آنے لگا۔ اب وہ دن یاد کرتی ہے اور مجھے کہتی ہے کہ استاذہ آپ نے مجھے سمجھایا تو یہی بات وجہ بن گئی کہ میراکریئر بن گیا۔
    جناب گل رحمان ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے متوازن خوراک کے فوائد سے گھر والوں کو آگاہ کرتے رہتے ہیں اور وقت پر ہر کام کرنا حتیٰ کہ وقت مقررہ پر کھانا تناول کر لینے سے انسان بہت ساری بیماریوں سے بچا رہتا ہے۔ ہم ڈرامے دیکھنے کے شوقین ہیں ۔دونوں کو ہی اشفاق احمد کے ڈرامے بہت پسند ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اور عاصمہ صاحبہ دونوں آپس میں عمزاد بھی ہیں۔ شادی بیاہ کی رسومات میں گھر میں کھانے وغیرہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن ایک نئی زندگی کا آغاز بہت ذمہ داری کا کام ہوتا ہے شادی میں تینوں دنوں یعنی مایوں، مہندی اور استقبالیہ کے لئے شاپنگ پسند سے کی۔ مایوں میں درس رکھا گیا تھا کہ عاصمہ صاحبہ نے بتایاکہ ہماری والدہ نے کہاکہ جب اتنا اہم کام ہو تو شروعات اچھے عمل سے کی جانی چاہئے ۔رخصتی کا جوڑا سرخ رنگ کا تھاجب کہ سبز اور کریم کلر کا کام کروایا گیا تھا۔
     حیدرآباد کی مٹھائی تو دور دور تک مشہور ہے ۔ شادی کی تقریب میں سب کزنز اور سہیلیوں نے دل کھول کر نئے پرانے گانے گائے۔ ادب کی بات ہوئی تومحترمہ عاصمہ نے کہا کہ شاعروںمیں پروین شاکر، فیض احمدفیض اور منیر نیازی پسند ہیں جب کہ انگریزی کے ناول نگار جسری آرچر اور ٹین براﺅن کے ناول پسند ہیں۔ ان میں فکشن بھی ہوتا ہے اور ایک انسان کی زندگی کی محنت اور آگے بڑھنے کا شوق بھی پرجوش بناتا ہے۔انہوں نے اس شخص کی کہانی لکھی جس نے جدو جہد کی اور ماﺅنٹ ایورسٹ سر کی لیکن پھر وہ جانبر نہ ہو سکا۔ خالد حسینی کی انگریزی زبان میں لکھی گئی ایک افغانی بچے کی سچی کہانی نے پوری دنیا میں ہی دھوم مچادی۔ خواتین کے لئے لکھنے والوں میں عمیرہ احمد اور نمرہ احمد قابل ذکر ہیں ۔

 

شیئر: