Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پارلیمنٹ کیسے چلے گی؟

کراچی ( صلاح الدین حیدر) پاکستان میں جمہوریت بڑی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی ہے لیکن اگر جمہوری ادارے ہی بیکار ہوجائیں تو عوامی حقوق کو کون سنبھالے گا۔ ملک میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے رفقائے کار نا تجربہ کاری کی وجہ سے مسلسل تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔ تنقید کے تیر و نشتر تو چلتے ہی رہیں گے لیکن اگر پارلیمان ہی عضو معطل ہو کر رہ جائے تو جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں تشویش بے جا نہیں کہلائی جاسکتی۔ عمران خان نے 17 اگست کو وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا لیکن آج تک قومی اسمبلی میں سوائے لڑائی جھگڑے کے کچھ اور دیکھنے میں نہیں آیا۔ بڑی مشکل سے تو قائد حزب اختلاف کا مسئلہ حل ہوا تھا لیکن پارلیمانی کمیٹیوں کا مسئلہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اپوزیشن ہر چیز میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے لیکن حکومت کو تو تحمل اور برداشت سے کام لینا چاہیے تاکہ پارلیمان کا اصل کام، یعنی قانون سازی ہوسکے۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ سوائے ایک بل کی منظوری کے جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحبان کی تعداد 6 سے بڑھا کر 9کرنے سے متعلق ہے دوسرا اور کوئی قانون پاس نہیں ہوسکا۔ اپوزیشن اور حکومت میں گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہے۔ فوجی عدالتوں کی فوری ضرورت ہے لیکن اس میں حکومت کو دوسری پارٹیوں کی حمایت درکار ہے۔ پی ٹی آئی اورن لیگ معاملات کو حل کرنا چاہتی ہے لیکن پیپلز پارٹی نے اپنی علیحدہ پالیسی بنارکھی ہے۔ خدا خدا کر کے حکومت اور پوزیشن کے درمیان اس بات پر تو اتفاق ہوگیا ہے کہ 38 پارلیمانی کمیٹیاں جو کہ قانون سازی میں مدد کرتی ہیں میں سے 18 کمیٹیوں کے سربراہان اپوزیشن کے ہوں گے جبکہ 20 کے سربراہ حکومتی نمائندے ہوں گے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ اسمبلی کو چلانا حکومت کا کام ہوتا ہے تو پھر سینیٹ چیئرمین کو یہ شکایت کیوں ہوئی کہ وزراءایوان بالا میں کیوں نہیں آتے؟ سینیٹ کے قائد ایوان فراز شبلی نے کہا کہ وہ وزیراعظم سے درخواست کریں گے کہ وزراءکو پارلیمان میں حاضر رہنے کی ہدایت کریں۔ اپوزیشن کے کئی ارکان، پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ، ڈاکٹر نفسیہ شاہ، سینیٹ میں شیری رحمان اور قومی اسمبلی میں شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور دوسرے اس بات پر سخت نالاں تھے کہ ایک غیر منتخب نعیم الحق نے جو کہ وزیراعظم کے سیاسی مشیر ہیں اپوزیشن پر لعن طعن کیوں کی؟ ان کا یہ کہنا کہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی اسمبلی میں آنے کا حکم منسوخ کردیں گے۔ بشرطیکہ وزیراعظم کی ذات پہ حملہ بند نہ ہوئے۔ بیان کچھ زیادہ ہی سخت تھا۔ ظاہر ہے کہ ن لیگ کے ارکان نے سیشن کے دوران آسمان سر پر اٹھا لیا۔ شاہد خاقان عباسی نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر شہباز شریف کو روکا گیا تو پھر اپوزیشن بھی وزیراعظم کو اسمبلی میں نہیں آنے دے گی۔ دونوں طرف سے تنقید کے تیر برسائے جانے لگے تو اسپیکر اسد قیصر نے اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا۔ غور سے دیکھا جائے تو اس کا نقصان حکومت کو ہی ہوا کیونکہ ضمنی بجٹ جو کہ صرف ایک ہفتے پہلے ہی پیش کیا گیا تھا پیش نہیں ہو سکا تو پھر ٹیکسوں کا کیا بنے گا۔ خزانے میں پیسہ کہاں سے آئے گا؟ حکومت خاص طور پر وزیراعظم کو فوری طور پر مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔ ورنہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔

شیئر: