Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ٹویوٹا کا ’ڈالا‘ طاقت، خوف اور دہشت کی علامت کیسے بنا؟

کراچی جہاں سٹریٹ کرائمز معمول کی چیز ہیں، وہاں یہ ’ڈالا‘ قدرے محفوظ سواری شمار ہوتی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سڑکوں پر جب ٹریفک کا بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے، تو اس وقت کچھ حیران کن مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
گاڑیوں کے شدید اژدھام میں پھنسے افراد اچانک اپنے پہلو سے ٹویویا ہائی لکس کی کسی پِک اپ کو راستہ چیر کر گزرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
یہ ہائی لکس طبقاتی اونچ نیچ پر مبنی ملک میں کچھ برسوں سے طاقت اور دہشت کی علامت بن چکی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے ایک 40 سالہ سیاست دان عثمان پہریار نے کہا کہ ’اس گاڑی کو دیکھ کر اب یہ تاثر ملتا ہے کہ اس پر کوئی اہم شخصیت جا رہی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس گاڑی میں سب کچھ ہے، یہ پُرکشش ہے اور اس کے اوپن کارگو بیڈ میں سکیورٹی والوں سمیت کئی افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے۔‘
کراچی اور ملک کے دیگر شہروں کی پرہجوم سڑکوں پر ان ہائی لکس پِک اَپس کو کاروں کے پیچھے برق رفتاری سے دوڑتے اور لائٹیں لگا کر راستہ چھوڑنے کا مطالبہ کرتے دیکھنا اب معمول کی چیز ہے۔
پاکستان میں ہائی لکس گاڑی پہلے پہل جاگیرداروں میں مقبول ہوئی کیونکہ یہ دیہی اور پہاڑی علاقوں دونوں کے لیے کارآمد ہے۔
لیکن حالیہ برسوں میں ’ڈالا‘ شہروں میں مالی آسودگی کے حصول میں کامیاب ہونے والے نئے کاروباری افراد میں کافی مقبول ہوا ہے۔ یہ اس گاڑی کو ایسکارٹ وہیکل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
سیاہ شیشوں والے ان ڈالوں کے پیچھے نقاب پوش گارڈز بیٹھے ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں اے کے 47 رائفلز ہوتی ہیں۔

گاڑیاں بنانے والی کمپنی ٹویوٹا نے ہائی لکس پِک اَپ سنہ 1968 میں متعارف کرائی تھی (فائل فوٹو: پینٹریسٹ)

کراچی کے ایک کار ڈیلر فہد نذیر نے کہا کہ کہ ’یہ ڈالا اب سٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔ لوگ اپنے آگے پیچھے اب ایک یا دو ڈالے ضرور رکھتے ہیں۔‘
ٹویوٹا نے ہائی لکس پِک اَپ سنہ 1968 میں شروع کی تھی لیکن اس کا جو ماڈل سنہ 2000 کے وسط میں مقبول ہوا وہ ’ہائی لکس ویگو‘ ہے۔
اس کے بعد اسے ریوو کے نام سے اَپ گریڈ اور ری برینڈ کیا گیا جس کی قیمت ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ تک ہے۔ اس کے بعد ان گاڑیوں کی قیمتیں مارکیٹ میں مستحکم رہیں جبکہ ان کی ری سیل ویلیو بھی بہترین ہے۔
کار ڈیلر فہد نذیر نے بتایا کہ ’ہمارے پاس موجود لگژری گاڑیوں میں یہ سب سے زیادہ تیزی سے فروخت ہوتی ہے۔‘
پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی سجاد علی سومرو نے کہا کہ ’خدا کی قسم! کوئی بھی شخص ریوو کے بغیر الیکشن نہیں لڑ سکتا۔‘
صوبہ پنجاب کے شہر گجرات میں مسلم لیگ ن سے وابستہ سیاست دان علی وڑائچ نے بتایا کہ سفر کے دوران ایسے ایک یا دو ڈالے ساتھ رکھنا ضروری ہیں۔ ان گاڑیوں کے ذریعے انہیں آف روڈ شادیوں اور جنازوں میں شرکت میں آسانی رہتی ہے۔

کراچی کے ایک کار ڈیلر فہد نذیر نے کہا کہ کہ’یہ ڈالا اب سٹیٹس سمبل بن چکا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا ’ان گاڑیوں کے بغیر سیاست اب تقریباً ناممکن ہے، اگر یہ نہ ہوں تو حلقے کے لوگ بھی اپنے رہنما کے بااثر ہونے پر سوال اٹھاتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ اب لازمی ضرورت بن چکی ہے۔‘
سماجی کارکنوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ گاڑی پاکستان میں اختلافی آوازوں کو دبانے کی علامت بھی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق حالیہ کریک ڈاؤن کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کے خلاف بغیر نمبر پلیٹ اور سادہ لباس افراد والے ان ’ڈالوں‘ کے استعمال نے ان کی بُری شہرت کو بڑھاوا دیا ہے۔
رواں برس کے اوائل میں اٹھائے جانے والے پی ٹی آئی کے ایک رکن نے کہا کہ ’اب جب بھی مجھے سڑک پر یہ گاڑی نظر آتی ہے تو میں اُسی ذہنی کرب سے گزرتا ہوں جس کا سامنا مجھے ایجنسیوں کی حراست میں کرنا پڑا تھا۔‘
مئی 2023 میں پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو اسلام آباد سے جب گرفتار کیا گیا تو انہیں ایسے ہی ایک ’کالے ڈالے‘ میں لے جایا گیا۔
اس کے بعد عمران خان نے نواز شریف پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ’ویگو ڈالے‘ کے ذریعے الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔

عمران خان نے نواز شریف پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ’ویگو ڈالے‘ کے ذریعے الیکشن جیتنا چاہتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

فوج کی سیاست میں مداخلت کے ناقد کی شہرت رکھنے والے پاکستانی شاعر اور سماجی کارکن احمد فرہاد کو رواں برس مئی میں اسلام آباد میں ان کے گھر سے ایسی ہی ایک ہائی لکس میں لے جایا گیا تھا۔
احمد فرہاد الزام عائد کرتے ہیں کہ انہیں خفیہ ایجنسیوں نے اٹھایا تھا۔
’کبھی کبھی یہ میری گاڑی کے آس پاس یا آگے پیچھے ایسی گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں۔ یہ واضح پیغام ہوتا ہے کہ ’ہم یہیں ہیں۔‘
احمد فرہاد نے کہا کہ ’ڈالا ان کے خوف کے دھندے کے لیے بہت موزوں ہے، جس سے انہیں اطمینان ملتا ہے۔‘
اس گاڑی کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ کراچی جہاں سٹریٹ کرائمز معمول کی چیز ہیں، وہاں یہ ’ڈالا‘ قدرے محفوظ سواری شمار ہوتی ہے۔

کار ڈیلرز کا کہنا ہے کہ لگژری گاڑیوں میں ویگو سب سے زیادہ تیزی سے فروخت ہوتی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

گاڑیوں کا شوق رکھنے والے 35 سالہ ذوہیب خان نے بتایا کہ ’یہ موبائل چھیننے والا عام طور پر ویگو کی بجائے کار والے کو لوٹنے کو ترجیح دیتا ہے۔ بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائمز کی وجہ سے شہر میں سکیورٹی ناکے بھی بڑھے ہیں لیکن ہائی لیکس پک اپ بلارکاوٹ سڑکوں پر دوڑتی پھرتی ہیں۔‘
ذوہیب خان نے بتایا کہ ’پولیس بھی ان بڑے ڈالوں کو یہ سوچ کر نہیں روکتی کہ شاید ان میں کوئی طاقت ور شخص بیٹھا ہو جو کہیں انہیں مشکل میں نہ ڈال دے۔‘

شیئر: