Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب .... اپنے دشمن کو پہچانو

عبداللہ بن بجاد العتیبی ۔ الشرق الاوسط
سعودی عرب خطے اور دنیا بھر میں اپنے دشمنوں سے واقف ہے۔ایسا ملک جس کے دشمن نہ ہوں وہ بے قدر و قیمت والا ملک ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ دشمنوں کا وجود طاقتور ، کامیاب اورموثر ہونے کی نشانی ہے۔خطے کی کشمکشوں سے پوری قوت سے نمٹنے پر دشمن بڑھیں گے۔ انکی عداوت میں اضافہ ہوگا اور اتحادی بھی پیدا ہونگے۔نئے سعودی عرب نے 4برس قبل انتہائی ہوش و حواس کے عالم میں فیصلہ کیا کہ دشمنوں او ران کے تخریبی منصوبوں کا مقابلہ کیا جائیگا۔
سعودی عرب اور خطے میں اس کے اتحادی معروف ہیں۔ خطے میں 2بڑے منصوبے نافذ ہورہے ہیں۔ ان میں سے ایک ایران اور اسکے دم چھلوں کا فرقہ وارانہ منصوبہ ہے ۔ یہ عراق، شام، لبنان اور یمن ،4 عرب ممالک میں چل رہا ہے۔ شیعہ ملیشیاﺅں اور سنی تنظیموں کی مدد سے یہ منصوبہ نافذ کیا جارہا ہے۔ دوسرا بنیاد پرست دہشتگردی کا منصوبہ ہے۔ اسکی حمایت خلافت کا خواب دیکھنے اور وہم و خیال کے پیچھے بھاگنے والے عناصرکررہے ہیں۔ یہ ترکی، قطر اور الاخوان المسلمون کا منصوبہ ہے۔دونوں منصوبوں کا ہدف دہشتگردی کی حمایت اور انارکی کا پرچار ہے۔ ان دونوں منصوبوں کے برخلاف سعودی عرب ریاست اور خطے کے استحکام کو مضبوط بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ یہ اس کا منصوبہ ہے۔سعودی عرب اعتدال ، روا داری اور امن کے پرچار کا منصوبہ چلا رہا ہے۔
سعودی عرب خطے میں نئی تاریخ رقم کررہا ہے۔ یہ ترقی، اقتصادی خوشحالی، ریاست و معاشرے کی تجدید ، روا داری ، محبت اور امن کے پرچار ، سرمایہ کاری لانے اور اس کے مواقع پیدا کرنے میں لگا ہوا ہے۔ سعودی عرب پورے خطے کو نیا یورپ بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اسکا برملا اظہار کرچکے ہیں۔ سعودی عرب اس رجحان کے حامل خطے کے ہر ملک کےلئے اپنے دست و بازو کھولے ہوئے ہے۔ خواب بڑے ہوتے ہیںتو اس کے نت نئے دشمن بھی سر ابھارتے ہیں۔ پرانے دشمن نئے انداز میں سامنے آتے ہیں۔ سعودی عرب نے خاشقجی کے مسئلے کو پس پشت ڈال کر اسے سیاسی قضیے کے بجائے قانون کے مسئلے کی شکل دی تو دشمن اس سے مطمئن نہیں ہوئے۔ وہ اس حوالے سے اپنی کہانیاں گھڑتے اور پیش کرتے رہے۔ بعض گروپوں کو بھڑکاتے رہے۔طریقہ کار تبدیل کرلیا گیا۔ دہشتگرد جماعتوں پر انحصار کے بجائے انسانی حقوق کے عنوان اپنائے گئے۔سعودی ریاست اور عوام کی مخالفت کرنے والوں کو اکسایا گیا۔ 
سعودی عرب نے جب ایسے مرد و خواتین کی گرفتاری کا اعلان کیاجن کا اپنا مخصوص ایجنڈا تھا اور جو سعودی دشمن غیر ملکی فریقوں سے رشتے استوار کئے ہوئے تھے اور جنہوں نے سعودی لڑکیوں کو مملکت مخالف منظم خارجی طاقتوں کی شہ پر فرار کرایا۔ یہ وہ تنظیمیں ہیں جنہیں سعودی لڑکیوں کے انجام سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انکا مقصد صرف اور صرف سعودی عرب کے خلاف عالمی رائے عامہ کو بھڑکانا اور مملکت کی منفی تصویر پیش کرنا ہے۔ یہ عناصر شرپسند ہیں اورصلاح و فلاح کے لبادے میں وارداتیں کرنے کا وتیرہ اپنائے ہوئے ہیں۔ 
عجیب بات یہ ہے کہ اس قسم کی منظم اشتعال انگیزی کینیڈا جیسے بعض مغربی ممالک کی شہ پر ہورہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب اپنے اندرونی امور میں مداخلت کی ہر کوشش کا جواب ڈٹ کر دے رہا ہے۔ جرمنی اور سویڈن نے جب اس طرح کی کوشش کی تو سعودی عرب نے انکے تئیں سخت موقف اختیار کیا۔ کینیڈا نے انہی کے طور طریقے اپنانے کی کوشش کی۔یہ ممالک یہ بھول گئے کہ لڑکیوں کا معاملہ خاندانی نوعیت کا ہوتا ہے جس میں ریاستیں دخل نہیں دیتیں مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ بڑے ممالک مداخلت کرکے بچکانہ حرکتیں کررہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ ممالک سعودی عرب کو کیوں ہدف بنا رہے ہیں۔یہ ممالک سعودی عرب میں برپا ہونے والی ترقی ، پیشرفت اور دنیا بھر کی طرف روشندان کھولنے والی اطلاعات کو کیونکر نظر انداز کررہے ہیں۔بات دراصل یہ ہے کہ یہ ممالک مفادات ،عادت یا منہاج کے تئیں سعودی عرب کو ہدف بنا رہے ہیں۔منہاج سے مراد یہ ہے کہ بائیں بازو کے اتحادی سیاسی اسلام کے علمبردار جماعتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ان سب کی آئیڈیالوجی، افکار اور رجحان سعودی عرب کے منافی ہیں۔جہاں تک عادتاً سعودی عرب کی مخالفت کا تعلق ہے تو اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ سیاسی دھارے اسی طرح سے ابلاغی دھارے مملکت کے حوالے سے عداوت ورثے میں حاصل کئے ہوئے ہیں ۔ یہ پرانے الزامات نئی شکل میں دہراتے رہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: