کرکٹ ڈپلومیسی یا نیو کلیئر ڈپلومیسی!
جمعرات 31 جنوری 2019 3:00
1987ء کے ابتدائی ایام کی بات ہے کہ پاکستان اور ہند میں محاذآرائی عروج پر تھی،دونوں طرف افواج بارڈرز پر لگی ہوئی تھیں۔ ہندوستانی افواج یہ تاثر دے رہی تھیں کہ اپنے وزیر اعظم راجیو گاندھی کے حکم کا انتظار کر رہی ہیں کہ پاکستان پر حملہ کر دیا جائے ۔دونوں اطراف میں شدید نفرت اور ہیجان انگیز ماحول عروج پر تھا ،جنگی ترانے بجائے جا رہے تھے کہ جوانوں کے خون کو گرم رکھا جاسکے۔میڈیا اور اخبارات میں بھی عجیب سنسنی خیز ماحول بنا ہوا تھا ،چند ہوش مند مگر کمزور آوازیں بھی بلند ہوتی تھیںلیکن ایک دم منظر بدلتا ہے،پاکستان کا دفتر خارجہ ،ہندوستانی دفتر خارجہ سے رابطہ کرتا ہے اور اطلاع دی جاتی ہے کہ صدرپاکستان ضیاء الحق پاکستان اور ہند کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ،جے پور میں کھیلا جانے والا میچ دیکھنے کے لئے تشریف لا رہے ہیں۔منظر قابل غور ہے کہ دونوں اطراف سے افواج ،بارڈرز پر لگی ہیں،ملحقہ علاقے خالی کروا لیے گئے ہیں۔سفارتی تعلقات انتہائی مخدوش بلکہ منقطع ہو چکے ہیں،لیکن جنرل کی دور اندیشی کچھ اور ہی پلان کر رہی تھی۔
جنرل ضیاء الحق کی آمد کی اطلاع ملنے پر ہند میں جو ردعمل ہوا ،اسے جاننے کیلئے ہندوستانی وزیر اعظم راجیوگاندھی کے مشیر بہرامنام کے ایک مضمون کا مطالعہ کرنا پڑے گا ،جو ہندوستانی اخبار’’انڈیا ٹوڈے‘‘ میں شائع ہوا۔بہرامنام لکھتے ہیں کہ وزیراعظم راجیو گاندھی ،صدرِپاکستان کا استقبال کرنے کو تیار نہیں تھے۔ان کے ساتھیوں اور اپوزیشن رہنمائوں نے کہا کہ یہ سفارتی آداب کے خلاف ہوگا اور دنیا میں غلط میسج جائے گا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور ہند ہٹ دھرمی پہ تلا ہے۔راجیو گاندھی ،استقبال کیلئے دہلی ائرپورٹ آئے لیکن نیم دلی ایسی کہ ہاتھ ملائے لیکن آنکھیں نہ ملائیں۔ بہرامنام لکھتے ہیں کہ راجیو گاندھی نے میری ڈیوٹی لگائی کہ میں جنرل ضیا کے ساتھ رہوں ،ان کے واپس روانہ ہونے تک ان کا پروٹوکول دیکھوں۔اس لحاظ سے میں ان دونوں کے بہت قریب تھا ،دونوں میں ہونے والی گفتگو بھی سن رہا تھا۔صدر پاکستان جب دِلی ائرپورٹ سے ’چنئی‘ جانے والے تھے ،جہاں سے پھر جے پور میں میچ دیکھنا تھا۔بھگوان جانے کتنا مضبوط آدمی تھا کہ راجیو گاندھی کے نامناسب رویے کے باوجود مسکرا رہا تھا۔انہوں نے راجیو گاندھی کا ہاتھ پکڑا اور مخاطب ہوئے’’راجیو،تم پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہو ،کرو،مگر یاد رکھنا اس کے بعد دنیا چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائے گی۔راجیوگاندھی اور ضیاء الحق کو یاد رکھے گی،کیونکہ یہ ایک روایتی جنگ نہیں ہوگی کیونکہ اس کے بعد ممکنہ طور پر صرف پاکستان کے مسلمان ختم ہو ں گے کیونکہ دنیا میں اور مسلم ممالک ہیں جبکہ پوری دنیا میںہندوئوں کا ایک ہی ملک ہندوستان ہے،اس کا نام ونشان مٹ جائے گا۔یہ ایٹمی جنگ کی کھلی دھمکی تھی جو ضیاء الحق نے سخت چہرے اورچمکتی آنکھوں سے راجیو گاندھی کو دی۔ بہرامنام کہتا ہے کہ یہ سن کر میری ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی،راجیو گاندھی کے چہرے پر بھی پسینے کے قطرے نظر آنے لگے۔ضیاء الحق اس وقت مجھے دنیا کا خطر ناک ترین انسان محسو س ہو رہا تھا۔اس کے چہرے اور آنکھوں کی سنجیدگی جیسے کہہ رہی ہو کہ جو کہہ رہا ہوں ،کر بھی دوں گا۔ایک ہی لمحے بعد وہ وفد کے دوسرے ارکان سے مسکراتے ہوئے ایسے مل رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔کیا مضبوط اعصاب کا مالک تھا کہ ایک دم چہرے کے تاثرات کو بدل لیا اور محسو س بھی نہیں ہو نے دیا۔راجیو گاندھی کے مشیر نے اپنے تاثرات میں لکھا کہ اگلے دن ضیاالحق اور راجیو گاندھی ،عشائیے پر مل رہے تھے اور ان کے معاہدے طے پا رہے تھے کہ افواج کو کیسے واپس بلایا جائے؟تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے کیا اقدامات کیے جائیں؟پھر چشم فلک نے دیکھا کہ کئی ماہ کی پلاننگ اور پھکڑبازی کے دوران بارڈر پر’’ فائر‘‘کے حکم کا انتظار کرتی ہندوستانی افواج ،چند دنوں میں واپس بیرکوں میں جا بیٹھیں۔پاک ہند تاریخ میں اس سفارتی حربے کو’’ کرکٹ ڈپلو میسی‘‘کا نام دیا جاتا ہے،جو دراصل نیوکلیئر ڈپلومیسی ثابت ہوئی۔
چند ماہ قبل ہندوستانی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے بھڑک ماری کہ پاکستان پر اسٹرائیک کر دیں گے اور ان کے ’’نیوکلیئر بلف‘‘ کو بے نقاب کر دیں گے۔اس وقت کے وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ’’ ویلکم‘‘آئیں۔بہت مستعدی سے جواب دیں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر ،میجر جنرل آصف غفور نے بھی اس گیڈر بھبھکی کا جواب دیا اور دشمن کو للکارا۔اسی طرح کا بیان اس نے چین کے خلاف دیا ،کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ہندوستانی افواج کی توجہ شمالی بارڈر پر مرکوز کی جائے اور ہم چین کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔ چین کے ترجمان نے اس کو شٹ اپ کال دی اور کہا کہ ڈوکلام کا تنازعہ بھوٹان کے ساتھ ہے ہند کے ساتھ نہیں۔ ہند کیلئے یہ پیغام کافی ہے کہ کسی بھی وقت پیپلزلبریشن آرمی کوئی بھی وجہ بنا سکتی ہے۔اس کے بعد جنرل راوت ،چین کے ساتھ مذاکرات کے حامی نظر آئے۔
پاکستان میں نئی حکومت قائم ہوئی تو وزیراعظم عمران خان نے ہند کو مذاکرات کی پیشکش کی۔ابھی حال ہی میں وزیراعظم نے مودی کو خط بھی لکھا لیکن ہند کی طرف سے نہ صرف سردمہری کا مظاہرہ کیا گیا بلکہ جنرل راوت پھر دھمکیوں پر اتر آئے ۔ انہوں نے پاکستان پر حملے کی بات کی تو پاکستان کی طرف سے وزیرخارجہ،وزیر اطلاعات اور وزیرریلوے شیخ رشید کی جانب سے بھر پور ردعمل کا اظہار کیا گیا۔شیخ رشید نے کہا کہ ہند میں ہمت ہے تو جرأت کر کے دیکھ لے پھر وہاں مندروں میں گھنٹیاں نہیں بجیں گی۔پاکستان کی نئی حکومت کی کامیاب سفارتی حکمت عملی نے ہند کو دنیا کے سامنے ایکسپوز کر کے رکھ دیا ہے۔دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کس طرح مذاکرات کی دعوت دے رہا ہے اور خطے میں امن قائم کرنیکا خواہشمند ہے جبکہ ہند جارحانہ انداز اختیار کیے ہوئے ہے۔پاکستان کے وزیرخارجہ کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اس ایشو کو بھر پور طریقے سے اٹھائیں۔