اسد محمد خان پاکستان کے نامور شاعر اور افسانہ نگار ہیں، ان کے پاس متنوع زندگی کا گہرا تجربہ،فطرتِ انسانی کا شعور اور اظہار کی بے پناہ صلاحیت کا انمول خزانہ ہے۔افسانوی دنیا میں ان کی شہرت پہلے مجموعے ’’کھڑکی بھر آسمان‘‘سے ہی ہو گئی،جو 13 افسانوں اور 38 نظموں کا مجموعہ ہے۔اس مجموعے میں شامل ایک افسانے’’با سودے کی مریم‘‘ کو تو افسانوی ادب میں بے مثال اضافہ کہا جا سکتا ہے۔ ’باسُودے کی مریم‘ میں ایک کردار مریم کا ہے جو ایک گھرمیں کام کرتی ہے ۔مریم نے اپنی تنخواہ کے چند روپوں سے’ ’مکہ مدینہ فنڈ‘‘کھول رکھا تھا۔یعنی اپنی تنخواہ کے پیسے جوڑ رہی تھی کہ میںاپنے پیسوں سے حج کرنے جاوٗں گی۔اسد محمد خان کے افسانے ’’باسُودے کی مریم‘‘ سے اقتباس کا کُچھ حِصہ اختصار اور ترمیم کے ساتھ پیش کر رہا ہوں ۔
’’ سفرمریم کی بڑی آرزو تھی ،وہ حج کرنا چاہتی تھیں۔ویسے تو ہمارے گھر کی مالکن تھیں ،مگر پتا نہیں کب سے تنخواہ لے رہی تھیں۔جو انہوں نے خو د ہی ایک روپیہ یا دو روپے مقرر کی تھی۔مریم کا خرچ کُچھ بھی نہیں تھا ۔باسُودے میں ان کے مرحوم شوہر کی تھوڑی سی زمین تھی،جو ممدو کے گُزارے کیلئے بہت تھی،اور بکریاں تھیں جن کی دیکھ بال ممدو کرتا تھا۔بڑا لڑکا شتاب خان ریلوے میں چوکیدار تھااور مزے کرتا تھا۔برسوں کسی کو پتا نہ چلا کہ مریم اپنی تنخواہ کا کیا کرتی ہیں۔پھر ایک دن وہ ڈھیر سارے کل دار روپے ،میلے کچیلے نوٹ اور ریز گاری اُٹھائے ہوئے گھر کے مالک کے پاس پہنچیں اور انکشاف کیا کہ وہ حج کرنے جا رہی ہیں۔کرائے کی یہ رقم ان کے برسوں کی کمائی تھی،یہ مکہ مدینہ فنڈ تھا جو مریم خبر نہیں کب سے جمع کر رہی تھیں،ان کو گن کر بتا یا کہ9سیکڑے، 3 بیسی،7 روپے اور کچھ آنے ہیں۔مریم کو اس سے غرض نہیں تھی کہ کتنے ہیں وہ سیدھا سا سوال پوچھ رہی تھیں کہ ان سے مکے مدینے کا ٹکٹ مل جائے گا یا نہیں۔ان کو بتا یا گیا کہ مل جائے گا۔
’’مگر ایک دن شتاب خان کا خط آیا کہ ممدو کی حالت خراب ہے بکریاں بیچ کر علاج کروایا ہے لیکن اب پیسے ختم ہوگئے ہیں ۔صُورت دیکھنا چاہتی ہو تو اس خط کو’ تار‘ ہی سمجھنا۔مریم کی آنکھوں میں مکہ مدینہ دُھندلا گیا۔انہوں نے 9 سینکڑے،3 بیسی،7 روپے چادر میں باندھے اور روتی پیٹتی باسودے کی بس میں جا بیٹھیں۔پھر ممدو کو لے کر مختلف جگہوں سے علاج کراتی رہی لیکن ممدو جانبر نہ ہو سکا اور مرگیا۔مریم بھی گھر لوٹ آئی۔اپنے ممدو کو کوستی اورروتی رہتی کہ اُس نے میرے سارے پیسے خرچ کروا دیے۔گھر کے مالک نے کہا کہ میں آپ کو حج کروا دوں گا لیکن مریم تو نبی جی کی دیوانی تھی۔ کہاں وہ کسی اور کے خرچے سے حج کرنے والی تھیں۔انہوں نے چُپکے سے پھر ’مکہ مدینہ فنڈ‘ کھول لیا ۔اپنی تنخواہ کے علاوہ جو بھی نئی چیز ملتی اس کو بیچ دیتی،نیا لحاف ،نئے کپڑے غرض کہ کچھ بھی نئی ضرورت کی چیز بیچ کر ’مکہ مدینہ فنڈ‘ میں جمع کر دیتی،لیکن کسی اور کے پیسوں پرحج کرنا قبول نہیں کیا۔ابھی 560 روپے ہی جمع ہوئے تھے کہ مریم کا وقت آگیا اور وہ ’مکہ مدینہ‘ اپنے حجور کا شہر دل میں بسائے اگلے جہاں سُدھار گئیں۔
چند دن قبل وزیراعظم پاکستان کی سربراہی میں کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومتِ پاکستان نے حج کے لئے دی گئی سبسِڈی واپس لے لی ہے تو سوشل میڈیا ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے چند اینکرز نے اس پر تنقید کی۔ان اینکرز نے جو لاکھوں میں کماتے ہیں ، سابقہ حکومتوںکے خرچ پر مُفت حج کیے۔کبھی میں سوچتا ہوں کہ جمہوریت اور میڈیا کی آزادی نے پاکستانی عوام اور معاشرے کو کیا دیا؟صرف کرپشن کا کاروبار ،کرپشن کی پنیریاں ،کرپٹ صحافی و دانشور اس دورِجمہوریت کی پیداوار ہیں۔
سابقہ حکومتوں نے مذہب کے نام پر بھی سیاست کی ،مُلک کو قرضوں میں ڈبو دیا اور عوام کو حج،میٹرو،اورنج لائن کے لولی پاپ دیتے رہے۔میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے سبسڈی واپس لی ہے تو اس وقت مُشکل مالی حالات میں یہ فیصلہ نامناسب نہیں ہے۔ عوام میں یہ شُعور بھی پیدا کرنا چاہئے کہ حج کو اپنی استطاعت کے حساب سے فرض کیا گیا ہے۔اگر استطاعت نہیں ،اس کا سوال نہیں ہو گا۔آج سیاسی رہنماوٗں اور صحافیوں نے حج کو غریب عوام کے پیسے سے کرنے کو جائزتسلیم کر لیا ہے۔پچھلے دور میں ہر شعبے میں خود غرض بونے اپنی فنکاریوں کے سبب ملک و قوم کو اخلاقی،سماجی زوال کی طرف دھکیلتے رہے۔یہ رُجحان تو خاص طور پر ترویج پاتا رہا کہ ملک میں مال بناوٗ اور پھر عُمرے پہ نکل جائو،مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیسے اللہ اور رسول ؑ کا سامنا کرتے ہونگے؟۔حرام کے مال سے عُمرے کرنے اور یہ تصور کہ سب معاف ہو جائے گا،اس اعتقادی اور مذہبی زوال کا سبب بنا ،اب تو عمرہ کرو ،سیلفیاں بناؤ سوشل میڈیا پر پھیلاؤ اور لوگوں کو پیغام دو کہ ہم ہی جنت کے حق دار ہیں۔
ماضی قریب کے عرصے کو دورِفتن ہی کہا جا سکتا ہے،ہم پر ایسے حکمران مسلط رہے جو کرپشن کا کاروبار کرتے ،پھر اس کرپشن کے پیسے سے عمرے کرتے،خیرات کرتے جو کہ مجموعی قومی زوال کا سبب بنا۔میں سمجھتا ہوں ہمیں کم از کم اللہ اور رسول کے در پر تو اپنی ذاتی حلال کمائی سے ہی جانا چاہئے۔ہمیں اپنا اپنا ’’ مکہ مدینہ فنڈ‘‘ بنانا چاہئے اور اپنی امنگوں ،دُعائوں اور عقیدتوں کے مراکز ’مکہ،مدینہ‘ کو دلوں میں بسا کر رکھنا چاہئے کہ وہاں سے بُلاوا آجائے ۔میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہمارا ایمان اور اخلاق ،گھر وں میں کام کرنے والی ’باسودے کی مریم ‘ جیسا نہیں ہو سکتا ؟جو میرے حجو ر ،میرے حجور کرتے کرتے رُخصت ہو گئی لیکن کسی’ ’سبسڈی‘‘اور مفت حج کی پیشکش قبول نہیں کی۔مرتے ’’وخت‘‘ پیغام دے دیا کہ’ ’یا رسول اللہ ،میں آتی ضرور ،مگر میرے ممدو نے میرے سب پیسے خرچ کرا دیے‘‘۔