جدہ ۔۔۔ سربرآوردہ علماءبورڈ کے رکن شیخ عبداللہ المنیع نے اطمینان دلایا ہے کہ ”المسیار “ نامی شادی کا طریقہ بالکل صحیح ہے۔ شریعت نے نکاح کیلئے جو شرائط و ضوابط مقرر کئے ہیں ان پر یہ طریقہ کار پورا اترتا ہے۔ زواِ ج مسیار کرنے والے نہ تو بزدل ہوتے ہیں اور نہ ہی خوفزدہ ۔ زواج مسیار ایک نجی نوعیت کا عمل ہے۔ ہر شخص اپنے حالات کو زیادہ جانتا اور سمجھتا ہے۔ انہوں نے عکاظ اخبار سے گفتگو میں توجہ دلائی کہ کسی بھی خاتون کو اپنے بعض حقوق سے دستبردار ہونے کا اختیار حاصل ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ شادیاں کئے ہوئے ہو تو ایک بیوی اپنی سوتن کے حق میں اپنی باری سے دستبردار ہوسکتی ہے۔ اسی طرح سے اگر کوئی خاتون دولت مند ہے یا اسکے پاس اپنے اخراجات ادا کرنے کی سہولت ہے تو وہ نان نفقہ کے سلسلے میں اپنے شوہر پر عائد ہونے والے اپنے حق سے دستبردار ہوسکتی ہے۔ اسے اپنے ایسے حقوق سے جن سے وہ دستبردا رہوگئی ہو دستبرداری واپس لینے کا بھی اختیار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسے عالم میں زواج مسیار کرنے والے شوہر کو شادی برقرار رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار ہوگا۔ جہاں تک شادی کے صحیح اور غلط ہونے کا تعلق ہے تو شادی درست ہوگی۔ اگر زواج مسیار کرنے والے کا ا نتقال ہوجائے تو اس کی بیوہ اسکی وارث ہوگی۔ مہر کا حق اسکا قائم ہوگا۔ اسے شوہر کی وفات پر عدت گزارنا ہوگی۔ اگر زواج مسیار سے اولاد پیدا ہوئی ہو تو وہ جائز اولاد شمار ہوگی اورانکے اپنے حقوق ملیں گے۔ عام طور پر زواج مسیار کی صورت یہ ہوتی ہے کہ باقاعدہ نکاح خواں یا عدالت میں نکاح کا اندراج ہوتاہے اور شوہر اپنی سہولت سے بیوی کے ہاں آتا جاتا ہے۔ نکاح کے باقاعدہ گواہ ہوتے ہیں۔