طلباء یونین کی پابندی کو 35 سال مکمل ہوگئے ہیں۔ جمہوری حکومتوں کی جانب سے طلباء یونین کو بحال کرنے کے دعوے کیے گئے لیکن ان پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ طلباء تنظیموں اور طالب علموں کی جانب سے طلباء یونین کو بحال کرنے کے لیے ملک بھر میں ریلیاں نکالی گئیں اور ٹوئٹر پر بھی ٹرینڈ لانچ کیا گیا۔
اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے ٹویٹ کیا گیا : طلبہ یونینز پر پابندی غیر جمہوری اور غیر دستوری ہے۔پاکستان کا آئین ہر شہری کو یونین سازی کا حق فراہم کرتا ہے۔
محمد عامر نے سوال کیا : طلبہ یونینز پرپابندی کس کے مفاد میں ہے؟ فوجی آمریا سیاسی جماعتوں کے؟ لیکن سیاسی جماعتیں یونین پرپابندی کیوں برقرار رکھے ہوئے ہیں؟
علی غوری نے لکھا : ہر باشعور طالب علم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ یونین کے لیے آواز اٹھائے تاکہ پاکستان میں تعلیمی نظام بہتر کیا جا سکے اور نوجوان سیاسی قیادت کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے۔
سبحان احمد نجمی نے ٹویٹ کیا : آج کے طلبہ کل کے رہبر "اور انہی رہبروں سے خوف میں مبتلا ہوکر اس وقت کے آمر جنرل ضیاءالحق نے 9 فروری 1984 کو طلبہ یونین پر پابندی لگا کر مستقبل کی قومی قیادت کا استحصال کیا تھا جو آج تک جاری ہے۔
سعد بن عتیق کا کہنا ہے : طلبہ یونین پر پابندی لگانا در حقیقت پڑھی لکھی باشعور قیادت کا رستہ روک کر غلاموں اور لٹیروں کو ایوانوں میں پہچانے کی سازش ہے۔
معیز الرحمٰن نے لکھا : نیچرل اور مخلص لیڈر شپ کا ایک ہی طریقے سے پروان چڑھ سکتی ہے اور وہ طلبہ یونین کے انتخابات۔تعلیم یافتہ طبقہ ہی ملکی ترقی کو سہارا دے سکتے ہیں۔
ملک خرم شہزاد نے ٹویٹ کیا : جمہوری حکومت کو ایک آمر کے اس غیر ضروری اور غلط فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے طلبہ یونین بحال کرنی چاہیے۔
زین مہر نے لکھا : آئینِ پاکستان کی شق نمبر17اے ہر شہری کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنی کوئی تنظیم یا یونین بنائےمگروہ ملکی مفاد کے منافی نہ ہو. طلبہ یونین کاکردارملکی سیاست میں بہت اہم رہا ہےاورحقیقی قیادت فراہم کرنے میں طلبہ یونین نے ایک نرسری کا کردارادا کیا ۔