Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دستور مدینہ سے انسانی اخوت کی دستاویزتک

فہد سلیمان الشقیران ۔ الشرق الاوسط
انسانی تاریخ نے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہونے والی جنگوں سے زیادہ بھیانک جنگیں نہیں دیکھیں۔ یہ جنگیں سیاسی تھیں۔ انہیں دین کا لبادہ اوڑھا دیا گیا تھا۔ گیارہویں صدی عیسوی میں نکتہ عروج کو پہنچ گئی تھیں۔ یہ جنگیں صلیبی جنگوں کے نام سے مشہور ہوئیں۔ ان جنگوں میں اقوام و ممالک کے سادہ لوح باشندے پس کر رہ گئے۔ فرقوں اور مذاہب کے درمیان خانہ جنگیوں نے ناحق اور بے مقصد لوگوں کا خون بہایا۔ ایک طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہر ایک کے خلاف ہر ایک کی جنگ تھی۔ ہوش مند انسانوں کی سر توڑ مساعی کی بدولت یہ جنگیں بند ہوئیں۔ ہر دور میں ہر جگہ اچھے ذہن کے لوگ ہوتے ہیں۔ 
ویٹیکن کے پاپ فرانسیس نے متحدہ عرب امارات کاد ورہ کیا۔ یہ دورہ پوری دنیا کی محفلوں کا موضوع بنا۔ یہ خلیج کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا بے نظیر تاریخی واقعہ بن گیا۔ عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان کشمکش کے خاتمے کی ضرورت کا احساس جہاں بھر کو دلا گیا۔ 1992ءسے 1995ءتک بلقان میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جنگیں ہوئیں۔ عصر حاضر کی ریاست دونوں مذہبوں کے پیرو کارو ں کے درمیان کشمکش کے خاتمے کی ضرورت کا ادراک کرنے لگی ہے۔ یہ جنگیں انتہا پسند عیسائیوں کی جانب سے لڑی گئیں۔ مسلمانوں نے ان کی بابت ہوشمندانہ فیصلہ یہ کیا کہ اس جنگ کا ذمہ دار دنیا بھر کے عیسائیوں کو ٹھہرانا درست نہیں۔ پھر القاعدہ، داعش ، بوکو حرام، الحشد الشابی اور ان جیسی دیگر انتہا پسند جماعتوںنے سر ابھارا تو سمجھدار عیسائیوں نے ان تنظیموں کی وجہ سے اسلام اور اس کے تمام پیرو کاروں کو اس کا ذمہ دار نہیں مانا۔
ویٹیکن کے پاپ اور شیخ الازہر نے” انسانی اخوت کی دستاویز“ اور انسانی اخوت ایوارڈ کا اہتمام کیا۔ پاپ کے نام سے گرجا گھر اور شیخ الازرہر کے نام سے مسجد کے قیام کا فیصلہ کرکے تاریخی ملاقات کی تاجپوشی کی گئی۔
انسانی اخوت کی دستاویز میں تسلیم کیا گیا کہ مذاہب کی صحیح تعلیمات امن اقدار سے وابستگی، انسانی اخوت، پرامن بقائے باہم اور ایک دوسرے سے تعارف پیدا کرنے کی علمبردار ہیں۔ آزادی ہر انسان کا حق ہے۔ مکالمہ ، مفاہمت ، روا داری کا کلچر ، اغیار کے وجود کو تسلیم کرنا اور ایک دوسرے کے ساتھ امن و امان سے رہنا پروقار زندگی کا ضامن ہے۔
انسانی اخوت کی دستاویز پر دستخط کا واقعہ مذاہب کے پیرو کاروںکے درمیان پیار، محبت والی زندگی کے حوالے سے مساعی جمیلہ کا اختتام نہیں بلکہ شروعات ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ ہر مذہب میں ایک دوسرے کے خلاف تلوار میانوں سے نکالنے والے پاگل موجود ہیں۔ انکا خاتمہ بیحد مشکل ہے۔ البتہ روا داری کے پرچار سے تعصب کی شدت، نفرت کا پاگل پن اور قتل و غارتگری کا جنون کم ہوگا۔
دستور المدینہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے مدینہ منورہ منتقل ہونے پر ہجرت کے بعد طے کیا گیا تھا۔ یہ مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کے درمیان پرامن بقائے باہم کی انتظامی دستاویز تھی۔اس قسم کے اقدامات ہی عصر حاضر میں پرامن بقائے باہم کیلئے مشعل راہ بن رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: