نیب اور فوج تنقید کی زد میں کیوں؟
جمعرات 14 فروری 2019 3:00
کراچی ( صلاح الدین حیدر) حکومت اور سرکاری شعبوں پر تنقید تو ہوتی ہی رہتی ہے لیکن اگر فوج اور نیب پر بھی کیچڑ اچھلنا شروع ہوجائے تو عجیب سا لگتا ہے۔ معلوم نہیں چلتا کہ آخر ہوا کدھر کی چل رہی ہے۔ثاقب نثار کے ریٹائر ہونے کے بعد امید یہی تھی کہ عدالتیں اپنے کام سے کام رکھیں گی۔ کسی اور صوبے میں مداخلت نہیں ہوگی لیکن حیرانی تو اس وقت ہوئی جب سپریم کورٹ نے 28 سالہ پرانا ایئر مارشل اصغر خان کا کیس دوبارہ سنتے وقت سوال کردیا کہ فوجی افسران جنہوں نے 1990ءکے انتخابات میں دخل در معقولات کرنے کی ابتدا کی تو ان کے خلاف کورٹ مارشل کیوں نہیں کیا گیا۔ محض انکوائری پر ہی کیوں وقت ضائع کیا گیا جس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس گلزار نے حیرت سے پوچھا کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سربراہ جنرل اسد درانی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی۔ آرمی ایکٹ کے تحت اگر کوئی فوجی افسر اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے تو قانوناً اسے کورٹ مارشل کی سزا ہونی چاہئیے۔قصہ کچھ یوں ہے کہ 1990ءمیں بے نظیر سے چھٹکارا پانے کے لئے آئی ایس آئی نے حبیب بینک کے ایک اعلیٰ افسر کے ذریعے 146 کروڑ روپے کے فنڈ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین، جماعت اسلامی، سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو، وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار نواز شریف سندھ کے سابق وزیر اعلی جام صادق علی وغیرہ میں تقسیم کئے تھے کہ انتخابات میں پیسے کے بل بوتے پر پیپلز پارٹی کو ہرا کر نئی حکومت تشکیل دی جائے۔یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ 1988ءکے انتخابات میں بے نظیر اور نواز شریف دونوں ہی نے تقریباً ایک جیسی تعداد میں قومی اسمبلی کی نشستیں جیتی تھیں ۔ بےنظیر جنرل مرزا اسلم بیگ سے ساز باز کر کے منصب اعلیٰ پر براجمان ہوئیں۔ نواز شریف منہ تکتے رہ گئے۔ اس بات کے 2 گواہ تھے ایک تو واجد شمس الحسن جو بعد میں برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر رہے اور دوسرے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر تفضل صدیقی، جو اسلم بیگ کے بہت قریب تھے۔ واجد شمس الحسن آج بھی حیات ہیں۔ تفضل صدیقی اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ بعد میں جنرل بیگ اور بینظیر کے درمیان اختلافات ہوگئے خاص طور پرجب بینظیر کی حکومت نے حیدرآباد سندھ کے پکا قلعہ میں سیکڑوں عورتوں، بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا، جنرل بیگ سخت ناراض ہوئے۔ حیدرآباد پہنچ کر آرمی کے ذریعے سانحہ کی روک تھام کی، بعد میں بےنظیر کو 22مہینے کے بعد حکومت سے علیحدہ کردیا گیا۔اس کے بعد دوبارہ انتخابات ہوئے اور آرمی چیف کے پلان کے ذریعے پیپلز پارٹی کو الیکشن جیتنے نہیں دیا اور نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ سیاستدانوں میں بڑی بڑی رقمیں تقسیم کی گئیں جسے جنرل اسد درانی نے تسلیم بھی کیا لیکن اسلم بیگ، نواز شریف اور دوسرے اس الزام سے انکاری تھے۔اس وقت کے صف اول کے رہنما ایئر مارشل اصغر خان نے 1994ءمیں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن 2011ءتک کیس کی شنوائی نہیں ہوئی۔ بعد میں اس پر سپریم کورٹ نے لوگوں پر مقدمہ چلانے کے احکامات دیئے لیکن عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اب یہ کیس دوبارہ کھل چکا ہے۔جسٹس گلزار اور جسٹس اعجازالحسن نے اٹارنی جنرل انور منصور سے استفسار کیا کہ آخر اسلم بیگ اور اسد درانی پر مقدمہ کیوں نہیں قائم کیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے جواباً کہا کہ الطاف حسین برطانیہ میں ایک عرصے سے قیام پذیر ہیں لیکن حکومتی سطح پر انہیں واپس لانے کی بات چیت چل رہی ہے۔اصغر خان تو انتقال فرما گئے لیکن اسد درانی ابھی حیات ہیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فوجی افسران کے خلاف انکوائری ہورہی ہے لیکن 30 سال بعد شواہد ملنے مشکل ہیں، بینکس صرف 10 سال کا ریکارڈ کھتے ہیں جس پر جج صاحبان نے ارشاد فرمایا کہ ہم بینکوں کے صدور کو بلالیتے ہیں تاکہ حالات کے بارے میں صحیح اطلاعات مل سکے۔ دوسری طرف قومی احتساب بیورو یا جسے عرف عام میں نیب کہتے ہیں کے خلاف اچھی خاصی مہم چل رہی ہے۔ اپوزیشن تو خیر روز ہی بیانات دیتی ہے لیکن حکومت کو بھی شکوہ ہے کہ نیب صحیح طور پرکام نہیں کررہی ہے۔ مقدمات عدالتوں میں پیش کرنے میں خاصی دیر لگتی ہے جس سے شواہد دیئے جاتے ہیں۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ نیب اپنی پوری کوشش کررہی ہے لیکن اصغر خان کیس میں اب شہادتیں تلاش کرنا مشکل نظر آتا ہے دیکھیں عدالت عظمیٰ کیا کرتی ہے۔ کیس بہت اہم ہے اور اگر اپنے صحیح انجام کو پہنچا تو اس کے بہت سخت مضمرات ہوں گے۔