Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں؟

  کراچی (صلاح الدین حیدر) پاکستان اور ہندوستان ایشیا کے 2بڑے ملک ہی نہیں دونوں ہی ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں ۔ خدانخواستہ ان کے درمیان کوئی جنگ چھڑتی ہے تو پھر کیا رخ اختیار کرے گی اس سوال کا جواب تو وقت ہی دے سکتا ہے ۔ نریندر مودی 5ریاستوں میں شکست کے بعد ملک کے باقی ماندہ حصوں میں اپنی حکومت بچانے کی فکر میں اگر ہوش کا دامن کھو بیٹھے تو اللہ ہی بہتر جانتے ہیں کہ کیا ہوگا۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات تو یہ ہے کہ دونوں ملکوں نے اپنی اپنی افواج کو کھلا اختیار دیدیا ہے کہ وقت پڑے تو حکومتی اجازت کا انتظار کئے بغیر ہی جو صحیح سمجھتے ہیں فیصلہ کرلیں ۔ جنگ صرف فوجیںہی نہیں لڑتیں بلکہ کئی ایک محاذ پر بیک وقت لڑی جاتی ہے۔معاشی محاذ پر ، سفارتی سطح پر۔ پھر جنگ کے دوران ایک وار کونسل بنادی جاتی ہے جس میں صدر مملکت جو افواج کے سپریم کمانڈر ہوتے ہیں۔ وزیراعظم ، وزیر دفاع، وزیر خارجہ تینوں مسلح افواج کے سربراہ ، ماہرین وغیرہ سب ہی شامل ہوتے ہیں جو مل بیٹھ کر پل پل کی خبروں کا جائزہ لیکر تدابیر اختیار کرتے ہیں ۔ جنگ کے بادل برصغیر پر بھرپور طریقے سے منڈلارہے ہیں ۔ کہنے کو تو پاکستان میں کم از کم لوگ تو پرامن ہیں لیکن اسٹاک مارکیٹیں ، بندرگاہیں۔ صنعت و حرفت کے کارخانے سبھی احتیاطی تدابیر اختیار کرچکے ہیں ۔ پھر آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے اگلی چوکیوں کا دورہ تو ضرور کیا لیکن سپاہیوں کو پرامن رہنے کی ہدایت کی ۔ بات نریندر مودی کے اس بیان سے شروع ہوئی کہ جس میں انہوں نے پلوامہ کے واقعات کے بعد جس میں 44فوجی ہلاک ہوگئے تھے پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکی دی ۔ اس پر عمران خان نے افواج پاکستان کو ہائی الرٹ کا حکم دیا ۔ سرحدوں پر کشیدگی بڑھتی جارہی ہے اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی موجودہ صورتحال کو انتہائی خطرناک قرار دیا ۔ دونوں ملکوں کو کشمیر پر بات چیت کرنے کا مشورہ دیا اور امریکہ کی طرف سے دونوں ملکوں میں بات چیت کروانے کی کوشش کی ۔ جب امریکی صدر اس صورتحال پر بری طرح پریشان ہوں تو صاف ظاہر ہے کہ صورتحال واقعی خطرناک ہے ۔ امریکہ کے پاس جدید ترین آلات موجود ہیں جس سے وہ دونوں طرف کی صورتحال سے اچھی طرح باخبر رہ سکتا ہے۔ شاید ہے بھی ۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد میں موجود تمام سفراءکو حالات سے باخبر رکھا ہوا ہے۔ ناروے کے سابق وزیراعظم نے اسلام آباد پہنچ کر صورتحال پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ۔ اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ سرحدوں پر صورتحال کتنی کشیدہ ہے۔کوئی بھی غلطی خطرے کی گھنٹی بجاسکتی ہے ۔ شاید ہندوستان میں میڈیا جو جنگی جنون کو ہوا دے رہا تھا۔ اپنی روش تبدیل کی ہے۔ آج کے ہندوستانی اخبارات اور تبصرہ نگاروں نے اپنا رویہ بدلا ہے اب وہ کہتے ہیں کہ خون کو بہنے سے تو روکا جاسکتا ہے لیکن پانی نہیں رکے گا ۔ پاکستان اور ہندوستان میں بہنے والے سارے کے سارے دریا ہمالیہ سے نکلتے ہیں اور ہند سے گزرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں ۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق تو ایسا ملک جو نشیب میں ہو اس کا پانی روکنا جرم ہے لیکن معاہدوں کی کون پروا کرتا ہے ۔ شکر ہے کہ ہندوستانی وزیراعظم نے اپنے بیان میں تبدیلی کی۔ اب ان کا کہنا ہے کہ پلوامہ حملے کا سفارتی اور تجارتی جواب دیں گے ۔پاکستان کے فوجی ترجمان نے بھی ہندوستانی آرمی چیف کو جنرل باجوہ کے وژن کی تقلید کا مشورہ دیا لیکن ایسا لگتا ہے کہ شاید ہندوستان میں عقل و ہوش کی باتیں کم کرنے والوں کی وجہ سے ہندوستانی میڈیا اور حکومت کی سوچ میں تبدیلی نظر آتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھا کر بات چیت کا آغاز کیا جائے تاکہ امن کو لاحق خطرہ ختم کرنے میں مدد ملے ۔ 

شیئر: