بے روزگاری کا حل آسان ہے۔ نوکر شاہی کی وجہ سے عمل درآمد مشکل ہے۔ بہت سارے عہدیدار نوکر شاہی کو جی جان سے لگائے ہوئے ہیں۔ نہ خامیاں دور کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنے یہاں موجود خرابی کی اصلاح کی انہیں کوئی فکر ہے۔
بے روزگاری کا حل یہ نہیں کہ دکانوں کی سعودائزیشن کردی جائے ،بے روزگاری کا حل یہ بھی ہے کہ نئی ملازمتیں پیدا کی جائیں۔ خالی پڑی ہوئی آسامیوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔ جامعات اور پیشہ ورانہ تربیت دینے والے مراکز سے فارغ ہونے والوں کو لیبر مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق تیار کیا جائے۔
حال ہی میں ایک خبر پڑھنے کو ملی جس میں بتایا گیا تھا کہ شہری خدمات کی وزارت کے لائحہ عمل کے تحت سرکاری اداروں کو جزو قتی ڈیوٹی کیلئے ملازم رکھنے کا اختیار دیدیا گیا ہے۔ اسے یونیورسٹی کے طلباءاور ملازمت کیلئے غیر یکسو ماﺅں کو روزگار فراہم کرنے کا مناسب حل بتایا جارہا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے 2011ءمیں الوطن اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر پڑھی تھی جس میں تحریر تھا کہ 4متعلقہ سرکاری اداروں کی نمائندہ کمیٹی نے وزارت تربیت و تعلیم کی 2تجاویز پر عملدرآمد کیلئے معلومات جمع کرنا شروع کردی ہیں۔ ایک تجویزیہ تھی کہ 26برس کی سروس کے بعداستانیاں ریٹائر ہوجائیں۔ دوسری تجویز یہ تھی کہ جزو قتی ملازمت کے نظام کی بدولت ایک آسامی پر 2استانیوں کی تقرری ممکن ہوسکے گی۔ دونو ںکو ریٹائرمنٹ کے بعدپینشن کے مکمل حقوق ملیں گے۔ وزارت تعلیم کے ذرائع کا یہ بھی کہناتھا کہ قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے قانون پر عملدرآمد سے جز وقتی ڈیوٹی والی ایک لاکھ ملازمتیں مہیا ہونگی۔ استانی کو کم از کم 4ہزا ر ریال تنخواہ ملے گی۔ پینشن کی سہولت ہوگی۔ میری اطلاع کے مطابق ابھی تک ان تجاویز پر عمل نہیں ہوا۔ اگرانہیں نافذ کردیا گیا ہوتا تو خواتین کی بہت بڑی تعداد بے روزگاری کے عذاب سے نجات پا جاتی۔ آج کل وزارت شہری خدمات اسی تجویز کو وزارت تعلیم سے آگے بڑھا کر تمام سرکاری ادارو ںپر لاگو کرنے کی بات کررہی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ تجویز ایسے انداز سے نافذ کی جاسکے گی جس سے بے روزگاری کا دائرہ محدود ہو؟بے روزگاری بہت سارے خاندانوں کیلئے عذاب جان بن چکی ہے۔ اسکے خاتمے کے لئے بہت ساری تجاویز پڑھنے اور سننے میں آتی ہیں مگر عملدرآمد کہیں نظر نہیں آتا۔ مجھے یہ بھی یاد پڑتا ہے کہ پیشہ ورانہ اور تکنیکی تربیت کے اعلیٰ ادارے نے 10برس قبل لیبر مارکیٹ کیلئے خواتین کی تیاری کا اعلان کیا تھا۔ ابھی تک یہ اعلان اپنی جگہ پر برقرار ہے۔ اخبارات کے صفحات سے باہر نہیں نکلا۔
میں نے 2013ءمیں ایک مضمون ”وزیر کے قدیم افکار“ کے عنوان سے تحریر کیا تھا۔ میں نے اس میں بتایا تھا کہ ہم لوگ بہت اچھی طرح سے سوچتے ہیں۔ عمدہ انداز میں باتیں کرتے ہیں، کام نہیں کرتے۔ تجاویز دیتے ہیں،غوروخوض کرتے ہیں،بحث مباحثے کا اہتمام بھی ہوتا ہے، نتائج بھی اخذ کرتے ہیں اور پھر یہ سارے مطالعات اور تجاویزفائلوں میں بند ہوکر رہ جاتی ہیں۔ 2001 ءکے موسم خزاں میں وزیر غازی القصیبی رحمتہ اللہ علیہ نے وزارت منصوبہ بندی کے سیمینار کیلئے ایک مضمون پیش کیا تھا۔ اس میں انہوں نے تحریر کیا تھا کہ آن لائن روزگار فراہم کرنے سے سعودی خواتین کے سامنے ملازمت کے نئے افق کھلیں گے۔ مملکت کے حالات خواتین کو دفاتر میں اٹھنے بیٹھنے اور ملنے ملانے کی اجازت نہیں دیتے جس کی وجہ سے خواتین کیلئے روزگار کا دائرہ محدود ہوگیا ہے۔ تعلیم یافتہ خواتین میں بے روزگار کی شرح تعلیم یافتہ مردو ںکے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ہمیں ٹرانسپورٹ اور تقرری کے سلسلے میں بھی خواتین کے مصائب کا علم ہے۔ غازی القصیبی نے برسہا برس قبل یہ بات کہی تھی۔ ان میں اب کچھ رکاوٹیں ختم بھی ہوگئی ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ پرانے افکار کو لاگو کیا جائے البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ بے روزگاری کا بحران دھماکہ خیزہونے سے قبل کسی بھی حل یا تجویز پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔