Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

” اب تمہاری گڑیا فرمائشیں کرنے کیلئے زندہ نہیں رہی“

 اسکے ہاتھوں سے چوڑیوں کے ڈبے چھوٹ گئے، رنگ برنگی چوڑیاں چور چور ہوگئیں، اسکے تمام خوابوں کی طرح جو آج کرچی کرچی ہوگئے 
عنبرین فیض احمد ۔ ینبع
میرو کا یہ روز کا معمول تھا کہ وہ دن بھر محنت مزدوری کرنے کے بعد شام کو تھکا ہارا جو بھی اجرت اسے ملتی لیکر گھر لوٹ جاتا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اس کی 10سالہ بیٹی جسے وہ پیار سے ہمیشہ گڑیا کہا کرتا تھا بھاگتی ہوئی اس سے لپٹ جاتی۔پھر اپنے بابا سے مختلف چیزوں کی فرمائش کیا کرتی ۔ ایک مرتبہ اس نے اپنے بابا سے کانچ کی چوڑیو ں کی فرمائش کر ڈالی۔ سو وہ آج بھی اپنے بابا کا انتظار کررہی تھی کہ وہ آئیگا اور اس کے لئے وہ چوڑیاں لائے گا۔ چنانچہ آج جب وہ گھر واپس آیا لیکن اس کے ہاتھ خالی دیکھ کر اسکی بیٹی اپنی چوڑیوں کے بارے میں سوال کر بیٹھی کہ آج بھی نہیں لائے۔ وہ اپنی بیٹی سے شرمندہ ہوکر ہمیشہ کی طرح جھوٹ بولا کہ بیٹا تمہاری چوڑیاں مجھے نہیں ملیں۔ وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ اس معصوم کو کیا معلوم کہ میں اس پیسے کی خاطر کہاں کہاں کی خاک چھانتا پھرتا رہتا ہوں۔ لہذا ہر دن وہ اپنی بیٹی سے وعدہ کرتا مگر اس کے پاس اتنے پیسے ہی نہ ہوتے تھے کہ اپنے بچوں کو ٹھیک طرح سے پیٹ بھر کر کھانا کھلائے نہ کہ انکی فرمائشوں کو پورا کرے۔ دونوں کام کرنے کی اس میں سکت نہ تھی۔
یہی اس کی روز کی مصروفیات تھی ہر دن صبح سویرے اٹھ کر اپنے گاﺅں سے ملحقہ قصبہ میں جاتا اور وہاں جاکر کام وغیرہ تلاش کرتا ۔ جو بھی کام اسے مل جاتا وہ کرتا جس سے تھوڑے بہت پیسے وہ کمالیتا اور شام کو گھر کی راہ لیتا اسکی بیوی کلثوم بھی کھیتوں پر کام کرتی تھی۔ اس طرح ان لوگوں کی گزر بسر ہوجاتی تھی۔ کلثوم اور میرو کی شادی کو 14سال ہوگئے تھے۔ ان 14برسوں میں قدرت نے 4بچوں کی ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر ڈالدی تھی۔ مگر قدرت کی شان کہیں یا پھر ان کی غربت ان چاروں بچوں کو کبھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہی نہ ہوا۔ اوپر سے مہنگائی اتنی کہ ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کرتی دکھائی دیتی۔
ہاں کبھی کبھی گاﺅں میں رہنے والے بڑے سائیں جی اور ڈاکٹر صاحب کے گھر کام کے سلسلے میں کلثوم اپنی بیٹی کو بھیج دیا کرتی تھی۔ پھر وہ لوگ کام کے عوض باسی روٹیاں اور کبھی کبھار بچی ہوئی سبزیاں بھی دیدیا کرتی تھی۔ ان ہی کے گھر میں گڑیا نے عورتوں اور لڑکیوں کو بھر بھر ہاتھ چوڑیا ں پہنے ہوئے دیکھا تھا۔ رنگ برنگی کانچ کی چوڑیاں گڑیا کا دل بھی مچل اٹھا۔ ان کانچ کی چوڑیاں دیکھ کر میں بھی پہنوں گی یہ چوڑیاں اسے بہت پسند تھیں ۔ خاص طور پر چوڑیوں کی کھنکتی ہوئی آواز۔ جب ڈاکٹر صاحب کی بیگم نے دیکھا کہ گڑیا کو چوڑیاں بہت پسند ہیں تو انہوں نے گڑیا سے پوچھا کہ کیا تمہیں چوڑیاں بہت پسند ہیں ؟ تو اس نے کہا کہ جی بی بی جی جب آپ ہاتھ ہلاتی ہیں تو ان چوڑیوں کی آواز میرے من کو بہت بھاتی ہے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی پرانی چوڑیاں لاکر گڑیا کی کلائی میں چڑھا دیں۔
اس دن گڑیا بیحد خوش تھی۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ اسے دنیا کا بہت بڑا خزانہ مل گیا ہو۔ وہ چوڑیاں پہن کر گھنٹوں ہاتھ ہوا میں اچھال کر لہرا کر ناچتی پھرتی رہی۔ چوڑیاں آپس میں ٹکرا کر کھنکتی تھیں اور گڑیا کا دل خوشی سے بلیوں اچھلتا تھا۔ غریب کے بچوں کی بھی کیا زندگی ہوتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے ارمان ہوتے ہیں اور پھر معمولی معمولی باتوں پر وہ خوش ہوجایا کرتے ہیں ان کے ہلکے پھلکے خواب ہوتے ہیں جو پورے ہوجائیں تو انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا انکے قدموں میں آگری ہے۔ گڑیا رانی کا بھی یہی حال تھا۔
دوسرے ہی دن بڑے سائیں جی (زمیندار صاحب) کے گھر شہر سے کچھ مہمان آگئے اور انکی بیگم نے فوراً گڑیا کو بلایا تاکہ وہ گھر کے کامو ںمیں ا نکا ہاتھ بٹا سکے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جب وہ ان کے گھر میں برتن دھو رہی تھی تو اس کے ہاتھ سے ایک پلیٹ پھسل کر گری اور ٹوٹ گئی پھر کیا تھا گویا قیامت آگئی بڑے سائیں کی بیگم نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ غصہ میں آکر اسے پیٹنا شروع کردیا جس سے اسکی ساری چوڑیاں ایک، ایک کرکے ٹوٹ گئیں۔ سائیں کی بیگم کو گڑیا کو چوٹ لگنے کی اتنی فکر نہیں تھی جتنی اپنی پلیٹ ٹوٹنے کا غم تھا۔ انہیں زمین پر ٹوٹے اپنے برتن کی فکر کھائے جارہی تھی۔ جو بہت مہنگا تھا اور انکا سیٹ بھی خرا ب ہوگیا تھا۔ 
دوسری جانب گڑیا کے جسم پر مار کے جو زخم تھے اس کی تکلیف سے زیادہ اس کو چوڑیوں کے ٹوٹ جانے کا دکھ تھا بار بار اپنی سونی کلائیاں دیکھتی اور پھر رونے لگتی۔ بابا میری ساری چوڑیاں ٹوٹ گئی۔ گڑیا کے والدین کو اس کے جسم پر لگنے والے زخموں کی فکر کھائے جارہی تھی۔ اس کی ماں گرم پانی سے اس کے زخموں کی سکائی کررہی تھی اور باپ بیچارے کا دل اندر ہی اندر مسوس رہا تھا کہ میری کانچ جیسی نازک سی گڑیا کا کیا حال ظالموں نے کردیا کسی کو میری بچی پر رحم تک نہ آیا۔ 
بابا یہ چوڑیاں مجھے ڈاکٹر صاحب کی بیگم نے دی تھیں اب وہ بار بار تھوڑی دیں گی۔ وہ یہ کہہ کر مسلسل روئے جارہی تھی۔ چپ ہوجاﺅ میری بچی میں تمہیں دوسری چوڑیاں لاکر دونگا۔ اس سے بھی اچھی چوڑیا ںلاﺅں گا۔ میرو نے اسے دلاسہ دیا اور گڑیا اس دن کے بعد سے ہر روز بڑی بے چینی اور بے قراری سے باپ کی واپسی کا انتظار کرتی اور آتے ہی چوڑیوں کا سوال کرتی لیکن روز میرو چاہنے کے باوجود اس کی فرمائش پوری نہیں کر پا رہا تھا۔
کسی کسی دن تو اسے کام تک بھی نہیں ملتا تھا اور وہ سارا دن یونہی گھوم پھر کر خالی ہاتھ گھر لو ٹ آتا تھا۔ وہ اپنی بیٹی سے روزانہ وعدہ کرتا کہ دل چھوٹا نہ کرو میری بیٹی آج گھر واپسی پر تمہارے لئے چوڑیاں لیتا آﺅنگا۔اور گڑیا روزانہ یہ جواب سن کر مطمئن سی ہوجاتی۔ اب میرو کے اندر ٹوٹ پھوٹ ہورہی تھی کہ وہ اپنا وعدہ جو اس نے بیٹی سے کیا ہوا ہے کس طرح پورا کرے۔ کسی کسی دن قسمت ساتھ دیتی تو اسے ٹھیک ٹھاک کام مل جاتا ورنہ تقریباً خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا اس دن بھی میرو نے یہی سمجھا کہ آج تو اچھا خاصا کام مل جائیگا اور آج بیٹی کی فرمائش بھی پوری کرلے گا اور پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس دن اسے خوب سارا کام ملا۔ دن بھر محنت مزدوری کرنے کے بعدآج اس کے پاس اچھی خاصی رقم بھی جمع ہوگئی تھی۔ وہ فوراً چوڑیوں کی دکان پر گیا اور گڑیا کیلئے چوڑیوں کے2 ڈبے بنوائے اور پھر اسے اپنی بیوی کی سونی کلائیاں یاد آگئیں ۔ بیچاری صبح شام بچوں اور میری خدمت کے سوا آج تک اسے ملا ہی کیا ہے۔کپڑے تک وہ دوسروں کے اترن اور پرانے پہن کر ہی گزارہ کرلیتی ہے او رپھر دن بھر کھیتوں میں یا پھر لوگو ںکے گھروںمیں کام کرتی ہے یہ خیال آتے ہی اس نے اپنی بیوی کلثوم کیلئے بھی چوڑیوں کا ایک ڈبہ خرید لیا۔ خوشی کے مارے لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا جب وہ گاﺅں میں داخل ہوا ۔ دو، چار جھونپڑیاں چھوڑ کر اسکی جھونپڑی تھی اسکی جھونپڑی کے سامنے کچھ لوگ کھڑے تھے اسے بیحد حیرت ہوئی کہ آخر معاملہ کیا ہے آخر اتنے سارے لوگ میری جھونپڑی کے آگے کیوں کھڑے ہیں؟ وہ دل ہی دل میں حیران اور پریشان بھی تھا اور پھر بڑے بڑے قدم اٹھاتا ہوا جھونپڑی کے اندر پہنچا تو میرو کو دیکھ کر کلثوم کے منہ سے چیخ نکل گئی جو ابھی تک شاید سکتے کے عالم تھی اور دھم سے زمین پرگرپڑی اور تینوں بچے بھی زورزور سے رونے لگے۔ میرو کی کچھ سمجھ میں نہیں آیاتو عورتیں کہنے لگیں کہ یہ چوڑیاں تم جس کے لئے لائے ہو وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ کیا ہوا میری گڑیا کو ؟ کسی نے کہا کہ آج ماں کے ساتھ کھیت میں گئی تھی وہاں سانپ نے اسے ڈس لیا اب تمہاری گڑیا فرمائشیں کرنے کیلئے زندہ نہیں ہے۔ اور وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ ہم غریبو ںکی بھی کیا زندگی ہوتی ہے ۔ اس کے منہ سے نکلا یا میرے مالک اور اسکے ہاتھوں سے چوڑیوں کے ڈبے چھوٹ گئے چھن سے آواز آئی اور رنگ برنگی چوڑیاں ادھر ادھر بکھر کر چور چور ہوگئیں۔ اسکے تمام خوابوں کی طرح جو آج کرچی کرچی ہوگئے تھے۔ بالکل اس کی نازک سی گڑیا کی طرح۔
٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: