زندگی زلف نہیں کہ سنور جائے گی
”والدین کے ا ختلافات نے علیحدگی کی صورت ا ختیار کر لی،باپ گھر چھو ڑ کر چلا گیا تو را نیہ کو چپ سی لگ گئی اس کی چیخ پکار کی طرف ابانے تو جہ نہ دی ،،
تسنیم امجد ۔ریا ض
صو فیہ بہت پریشان تھی ۔کہنے لگی رانیہ کو چپ سی لگ گئی ہے ۔اس نے گھر کے حالات کا بہت ا ثر لیا ہے ۔لیکن میں بھی کیا کرتی ارشد سے میری بنی ہی نہیں۔سچ پوچھو تو میں نے اماں کو کہا تھا کہ مجھے یہ رشتہ پسند نہیں لیکن انہوں نے میری ایک نہ مانی۔رانیہ کی پیدائش بھی ہم دونوں کو ایک نہ کر سکی ۔جھگڑوں میں ہی12برس گزر گئے۔ایک دن ارشد آفس سے گھر نہ آ ئے اور پیغام بھجوا دیا کہ ان کی پوسٹنگ دوسرے شہر میں ہو گئی ہے ۔شہر کا نام بھی نہیں بتایا ۔مجھے ان کے اس رویے پر سخت افسوس ہوا۔اس لئے میں نے بھی معلوم کرنے کی کو شش نہیں کی ۔کرتی بھی کیوں ؟انہیں میرا نہیں تو بیٹی کا ہی خیال ہوتا ،یہ فیصلہ کرنے سے پہلے ۔رانیہ اپنے باپ سے بہت پیار کرتی ہے۔اسے اس دن سے چپ سی لگ گئی ۔اس کی چیخ و پکار کی طرف ابا نے تو جہ نہ دی ۔اب نہ کھاتی ہے اور نہ ہی میرے لاکھ منانے پر مجھ سے بو لتی ہے ۔اسے یہی شکایت ہے کہ آپ ابا سے کمپرو ما ئیز کر لیتیں ،میری خاطر۔مجھے ان سے بہت محبت ہے ۔اس پر یہ مجھ سے ڈانٹ کھاتی ۔اب وہ مجھ سے با لکل بات نہیں کرتی ۔یہ کہہ کر صو فیہ پھر رونے لگی ۔ہم اسے تسلی ہی دے سکتے تھے ۔کچھ دیر بعد وہ چلی گئی یہ کہتے ہوئے کہ رانیہ کی دوا کا وقت ہو گیا ہے ۔ہم سو چنے لگے کہ اولاد ہر گھر کے آ نگن کی دو لت ہوتی ہے۔یہ نہ ہو تو والدین کو ایک کسک رہتی ہے اور اوپر والے جینے نہیں دیتے ، ا گرہو تو اس کی قدر نہیں کرتے ۔جن کی گودیں سونی ہیںان سے پو چھئے کہ ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہے ۔یہ تو کو ئی بات نہ ہوئی کہ ،والدین کے اختلافات نے علیحدگی کی صورت ا ختیار کر لی اور باپ گھر چھوڑ کر چلا گیا ۔ماں کا کردار بیٹی کے لئے مشعلِ راہ ہوتا ہے اس کی تمام امیدیں اس سے وابستہ ہوتی ہیں ۔
زندگی کی مصروفیات میں ہمارا اس سے رابطہ نہ ہو سکا،سال آ نکھ جھپکتے ہی گزر گیا ۔ایک دن شاپنگ سے واپسی پر ہم نے سول ہسپتال کے سامنے اسے دیکھا وہ ایک لڑکی کی وہیل چئیر تھامے سڑک کراس کرنے کی منتظر کھڑی تھی ۔رکشے کو مڑنے کو کہا ۔رانیہ وہیل چئیر پر تھی۔اس نے بتایا کہ آج اس کا لمبر پنکچر تھا (ریڑھ کی ہڈی سے پانی نکالنے کا ٹسٹ)۔اسے گردن توڑ بخار ہو گیا تھا ۔اس نے طوالت پکڑی ۔اب یہ چل نہیں سکتی ۔بخار نے اسے پیرا لا ئز کر دیا ۔اللہ پہ آ سرا ہے ۔علاج جاری ہے ۔رانیہ کو میں نے پیار سے سینے سے لگایا تو وہ رونے لگی۔پھر بولی کہ آنٹی گھر چلئے نا ۔بہت اداس ہو رہی ہوں۔ہم گھر آ ئے ۔صو فیہ بضد ہوئی کہ چائے پی کر جانا وہ کچن میں گئی تو رانیہ نے مجھے ڈرتے ہوئے کہا کہ بابا کہاں ہوںگے ان کا پتہ لگا دیں ۔میں انہیں بہت ِمس کرتی ہوں ۔اب تو دو سال ہونے کو ہیں ۔ان کو بھی میری یاد نہیں آ ئی اس کی آ نکھیں بھرا گئیں۔وہ باپ کا ذکر کرتے ہوئے صو فیہ سے ڈر رہی تھی ۔مجھے اس بچی پر بہت رحم آ یا ۔اس سے وعدہ کیا کہ وہ ان کا پتہ ضرور لگا ئے گی ۔وہ بولی ان سے کہنا بس ایک مرتبہ مل جا ئیں۔میں ان کو خود ڈھو نڈنے کے قابل نہیں رہی۔
میرے لئے کتابِ ما ضی کا یہ بہت ہی دکھ بھرا ورق ہے اسے میں بھلا نہیں پائی ۔کیونکہ اس کے والد کا معلوم کیا تو یہ سن کر بہت افسوس ہوا کہ انہوں نے جلد ہی شادی کر لی تھی اور آجکل قطر میں ہیں ۔ان سے رابطہ کیا اور رانیہ کا بتایا تو بولے اس کی ماںسے کہو کہ اس کا خیال میرے بغیر رکھ لیتی ۔گھر کی بر بادی کی ذمہ دار وہی ہے ۔اس کے علاج کی کیا صورت حال ہے ۔مہربانی کر کے مجھے بتا دیجئے ۔اس سے زیادہ میں کیا کر سکتا ہوں ۔یہاں کی فیملی قطر سے ہی ہے ۔اب میں پرانے جھگڑوں میں پڑ نہیں سکتا۔
دو ہفتے تک میں ان سے را بطہ نہیں کر سکی کیو نکہ یو نیورسٹی میں امتحان چل رہے تھے ۔آ خری دن سو چا ادھر ہوتی جاتی ہوں ۔صو فیہ سے رانیہ کے سلسلے میں بات کر لوں گی۔گھر پر تالا دیکھ کر کچھ دیر تو انتظار کیا پھر کونے کی دکان سے پو چھا تو معلوم ہوا کہ را نیہ زیادہ بیمار ہو گئی تھی اوردو روز ہوئے اس کا انتقال ہو گیا ہے ۔اس کی ماں اکثر قبرستان میں ہی رہتی ہے ۔قریب ہی ہے دیکھ لیجئے ۔میرے لئے یہ خبر کسی دھماکے سے کم نہ تھی ۔مجھ میں ہمت نہ ہوئی کہ صوفیہ سے ملتی لیکن اتنے میں وہ خود آ گئی ۔اجڑی اجڑی سی صورت لئے وہ میرے گلے لگ کر رونے لگی ۔ اس دن ہم نے خوب با تیں کیں ۔اسے اپنی غلطی کا شدت سے ا حساس تھا ۔کہنے لگی ،
زندگی کیا ہے کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے رہتے ہیں
تو نے چھیڑا ہے تو کچھ اور بکھر جائے گی
زندگی زلف نہیں ہے کہ سنور جا ئے گی
قارئین ! رانیہ جیسے بچے نہ جانے کتنے ہوں گے جو زندہ رہ کر بھی زندہ درگور ہوں گے ۔والدین اپنے جھگڑوں میں بچوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔اکثر اولاد با غی ہو جاتی ہے یا اپنے وجود سے نفرت کرنے لگتی ہے ۔نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو جاتی ہے لیکن کیا کریں والدین خود کو بچہ سمجھ لیتے ہیں ۔مقدر کا لکھا سمجھ کر بچوں کی خاطر حالات سے سمجھوتہ نہیں کرتے۔اگر باہمی اختلافات ہیں تو بچوں کی پیدائش سے پہلے علیحدگی ا ختیار کر لیں ،بعد کی ندامت کا کیا فا ئدہ ؟ ازدواجی مسر تیں 50/ 50 کا نام نہیں بلکہ 60 / 40اور کبھی 75 / 25کا نام ہے ۔یہ تناسب کسی ایک فریق کے لئے نہیںبلکہ دو نوں کے لئے ہے ۔کبھی ایک کا پلڑا بھاری اور کبھی دوسرے کا ۔
زندگی کو CMAT CLUBیعنی ” کانٹ مس آ تھنگ کلب ،، جان کر گزارو تو رنجشیں خوف سے دور بھاگ جا ئیں گی ۔ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا چا ہئے کہ عموماََ اوسط عمر 70برس ہو تی ہے جو کہ بہت کم ہے اسے ہنس کھیل کر حالات سے مقابلہ کر کے گزاریں تو بہتر ہو گا
شادی ایک معاہدہ ہے جس کے فریق لڑکا لڑ کی ہی نہیںبلکہ آنے والی نسلیں بھی ہو تی ہیں۔خود غرضی اس رشتے میں نہیں چلتی ۔ایک دوسرے کی ذات میں دلچسپی محبت کے در کھو لتی ہے ۔الفاظ کا استعمال اس رشتے کو کمزور یا مضبوط بناتا ہے ۔ انڈر اسٹینڈنگ کے لئے محبت کے دو بول ہی کافی ہیں ۔عزت و ا حترام رنجشوں کو قریب پھٹکنے نہیں دیتا ۔خلوص نیت ،جذ بوں کی صداقت کے ساتھ راستے بنتے چلے جاتے ہیںاور گھر ایک جنت بے نظیر بن جاتا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭