Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ملک میں

 منصورہ سے ہم قاہرہ کیلئے نکلے،سڑک بہت اچھی نہ تھی، راستے میں گاؤں بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے ملک میں ہوتے ہیں
 
عبدالمالک مجاہد۔ریاض

    قارئین کرام! میں اپنے کو ابن بطوطہ کے محبین میں شمار کرسکتا ہوں۔ابن بطوطہ کو سیروسیاحت کا بڑا شوق تھا۔ یہ عظیم مسلم مورخ مراکش کے شہرطنجہ میں 703 ہجری میں پیدا ہوا۔یہ ان شخصیات میں سے ایک تھے جنہوں نے پوری دنیا کا چکر لگایا۔ بچپن میں ان کا نام محمد بن عبداللہ آل کنجی تھا۔انہوں نے ابن بطوطہ کے نام سے شہرت پائی اور 73سال کی عمر میں مراکش میں وفات پائی۔ ابن بطوطہ جہاں بھی تشریف لے گئے انہوں نے وہاں کے بارے میں لکھا اور خوب لکھا۔آج تک ان کے سفر نامے دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔
     ہر سیاح کسی بھی ملک کو اپنے انداز میں اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ اگر اس کے ساتھ اچھا یا برا سلوک ہوتا ہے تو یقینا وہ اپنے سفرنامہ میں اس ملک کے باشندوں کی عادات، اس کے ساتھ ہونے والے سلوک کے مطابق لکھے گا۔
     ان سطور لکھنے تک میں الحمدللہ کم و بیش 30 ملکوں کا سفر کر چکا ہوں۔ بعض ممالک میں متعدد بار گیا۔ سب سے زیادہ میں نے لبنان اور شام کا سفر کیا۔ دمشق ایک زمانے میں میرے لیے دوسرے گھر کی طرح تھا۔ جوانی کا دورتھا۔ شامی کھانے بڑے مزیدار اور لذیذ ہوتے ہیں۔ میں اس سنہرے وقت کا منتظر ہوں جب میںدوبارہ جبل قاسیون پر بیٹھ کر دمشق شہر کا نظارہ کر سکوں گا۔ میرے سامنے شاورما کی پلیٹ ہو اور میں دیوار پر آلتی پالتی مار کر بیٹھا اپنے دوست یاسر کے ساتھ باتیں کررہا ہوںگا۔
    قارئین کرام!میں نے مصر کا کئی بار سفر کیا۔ آخری سفر آج سے کوئی 12سال پہلے تھا۔ قاہرہ میں ہر سال کتابوں کی بڑی نمائش لگتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مشرق وسطی میں کتابوں کی سب سے بڑی نمائش ہوتی ہے جو 15 روز تک جاری رہتی ہے۔ مجھے3 مرتبہ اس نمائش کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ بلاشبہ اس نمائش کو دیکھنے کیلئے لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ ہر سال جب نمائش کا وقت آتا تو میرامصر جانے کا پروگرام بنتا پھر بوجوہ ملتوی ہو جاتا مگر اس سال جنوری2019  کے آخر میں نے مصر کا سفر کر ہی لیا۔ یہ سفر مصر کے گزشتہ اسفار کی طرح بڑا یادگار رہا۔
     قارئین کرام!میرا حافظہ مجھے آج سے 30 سال پہلے کی طرف لے گیا ہے جب میں نے پہلی مرتبہ مصر کا سفر کیا تھا۔ مجھے سعودی عرب آئے ہوئے 9,8 سال گزر چکے تھے ۔میں نشرواشاعت کے کاروبار سے منسلک ہو چکا تھا۔ بچپن سے مجھے اہرام مصر اور قاہرہ کا عجائب گھر دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ اس زمانے میں سفر بڑا آسان تھا۔ سعودی عرب میں مقیم ہونے کی وجہ سے کسی بھی ملک کا ویزہ چند دنوں میں بغیر کسی رکاوٹ کے مل جاتا تھا۔ مصر کا سفارتخانہ ویسے بھی پاکستانیوں کیلئے فرینڈلی تھا۔ میرے ایک سعودی دوست کو جب معلوم ہوا کہ میں مصر جانے کا ارادہ رکھتا ہوں تو وہ بھی تیار ہوگئے۔ مجھے انکے عزائم کا علم نہ تھا کہ وہ شادی کی نیت سے وہاں جانا چاہ رہے ہیں۔ جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے ہمارا سفر قاہرہ ائیرپورٹ تک تو اکٹھا تھا، وہاں جا کر انہوں نے علیحدہ ہوٹل بک کروالیا اور شادی بھی کر لی۔ میں نے علیحدہ ہوٹل لے لیا۔
    قارئین کرام! آپ جب بھی کسی دوسرے ملک میں جائیں ایک رات تو سفر کی تھکاوٹ کے نذر ہوتی ہے، نیز آپ ماحول سے آگاہی بھی چاہتے ہیں۔ میں نے جاتے ہی ہوٹل کی انتظامیہ سے جائے نماز طلب کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس تو جائے نماز نہیں ہے۔ اب معلوم نہیں انہوں نے شرارتاً ایسا کیا یا واقعی ان کے پاس نہیں تھی۔ یہ ہوٹل تھری اسٹار ہوگا۔ خیر میں نے تولیہ بچھا کر نماز ادا کرلی مگر میرا دل کا خراب ہوا۔ بس میں نے تہیہ کر لیا کہ میں نے فوراًواپس چلے جانا ہے۔ میں نے اگلے دن ایک ٹیکسی ڈرائیور کو روکا ۔اس سے کہا کہ میں قاہرہ شہر کی سیر کرنا چاہتا ہوں۔ اہرام مصر سمیت قاہرہ میں جو مشہور جگہیں ہیں ہم وہاں جائیں گے۔ تم شام تک میرے ساتھ رہو گے، بتاؤ کیا لو گے۔ میں نے اسے دوپہر کے کھانے اور چائے کی بھی پیشکش کردی۔ اس سے وہ خوش ہو گیا۔ ہم سارا دن ساتھ رہے۔ شام تک ہم ایک دوسرے کے دوست بن چکے تھے۔ ہم نے مختلف مقامات اور مساجد کو دیکھا ،اہرام مصر کی سیر کی۔ مجھے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے بچے کو کبھی نہیں بھولا جس نے ایک تھالی میں کھجوریں ڈالی ہوئی تھیں۔ وہ چیکنگ کی جگہ پر کھڑا تھا۔ ہر گاڑی یہاں پر رکتی تھی۔ اسے پولیس کے سپاہی چیک کرتے تھے۔ وہ گاڑی میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو کہتا: سریہ ڈیٹ ہے، اسے لے لیں۔
    میں نے مصر کے بارے میں لکھنا شروع کیا ہے تو ابن بطوطہ کی طرح مجھے بھی کتنے واقعات یاد آ رہے ہیں۔میں اُس دن کو کبھی نہیں بھولا جب میں قاہرہ ایئر پورٹ پر اترا تو سامنے لکھا ہوا تھا: ادخلوا مصر ان شاء اللہ آمنین۔ مجھے یہ پڑھ کر بڑا اچھا لگا۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے یہ الفاظ اپنے والد گرامی سیدنا یعقوب علیہ السلام اور اپنے بھائیوں سے اس وقت کہے تھے جب وہ کنعان سے مصر پہنچے تھے۔
     میرے ساتھ 2مرتبہ ایسا ہوا کہ میں قاہرہ ایئرپورٹ پر ایمیگریشن تک پہنچا تو آفیسر نے پاسپورٹ پر ٹھپہ لگانے کی بجائے مجھ سے کہا :ادھر کرسیاں رکھی ہوئی ہیں وہاں بیٹھ جائیں اور انتظار کریں۔ کچھ دیر بعد آپ کو پکارا جائے گا۔ آپ کوکچھ سوالات کے جوابات دینے ہوں گے۔
    میں نے دیکھا کہ کافی تعداد میں لوگ بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر آپ کو ایمیگریشن کیلئے ایئرپورٹ پر گھنٹہ 2 گھنٹے انتظار کرنا پڑ جائے تو اس کی جو کیفیت ہوگی وہ وہی جانتا ہے جو اس مرحلہ سے گزرتا ہے۔ کوئی 2 گھنٹے گزرنے کے بعد جب میری باری آئی تو میراموڈ خاصا خراب ہو چکا تھا۔ مجھے ایک کمرے میں ایک آفیسر کے سامنے بٹھا دیا گیا۔ اب سوال و جواب شروع ہوئے۔ آپ ہمارے ملک میں کیا لینے آئے ہیں۔ اتفاق سے ان دنوں بک فیئرلگا ہوا تھا۔میں نے بتایا کہ میں کتابوں کا میلہ دیکھنے آیا ہوں۔ ایسے موقع پر آپ کو سوالات کے جوابات بڑی ہوش سے دینے ہوتے ہیں۔ آدمی کی ذہانت کا پتہ ایسے ہی موقعوں پر لگتا ہے۔
     قارئین کرام!آگے بڑھنے سے پہلے میں آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سنا کر اپنی بپتاسناؤں گا۔ ایک عرب ملک میں داخل ہونے کیلئے ایک داعی ایمیگریشن کی قطار میں کھڑا ہے۔قطار آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے۔ اس داعی نے داڑھی رکھی ہوئی ہے۔ اس کی باری آتی ہے۔ ایمیگریشن آفیسر اس کا پاسپورٹ اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے۔ اسے بار بار دیکھتا ہے۔ اس کی انگلیاں بڑی تیزی سے حرکت کر رہی ہیں۔ پاسپورٹ کے صفحات آخر کتنے ہوتے ہیں!وہ بار بار پاسپورٹ کے صفحات دیکھتا ہے کہ وہ کتنے ہی ملکوں کا سفر کر چکا ہے۔ ان ممالک کی مہر پاسپورٹ پر لگی ہوئی ہے۔
    آفیسر سوال کرتا ہے: تم مسلمان ہو۔جواب ملا ہاں۔ اچھا اگر مسلمان ہوتو سنی یا شیعہ۔ جناب میں سنی ہوں۔ اچھا یہ بتاؤ کہ تم شافعی ہو کہ حنفی۔داعی خوب سمجھتا تھا کہ اگر میں نے اس سے کہا کہ میں شافعی ہوں اور حنفی ہوا تو یہ مجھے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیگا اور اگر میں نے کہا میں حنفی ہوں اور یہ آفیسر شافعی مسلک سے تعلق رکھتا ہو تو پھر بھی یہ مجھے واپس کرسکتا ہے۔اس نے ذرا سوچا اور بڑا خوبصورت جواب دیا ۔اس نے کہا: جناب! میرے والد شافعی تھے اور والدہ حنفی مسلک سے تعلق رکھتی ہیں۔
     ایمیگریشن آفیسرنے اُس پر ایک غلط نگاہ ڈالی اور بڑے غصے سے پاسپورٹ پر زور سے ٹھپا لگایا جس کی آواز پورے ہال میں سنائی دی۔ اس نے کہا کہ اپنے گھر میں صرف اپنی والدہ کو میرا سلام کہنا۔
     کچھ میرے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ اس نے سوال کیا کہ تم کیا کام کرتے ہو۔ میں نے جواب دیا کہ جناب میں بک پبلشر ہوں۔ کہنے لگا کہ کس قسم کی کتابیں شائع کرتے ہو۔ میں نے کہا کہ بچوں کی کتابیں شائع کرتا ہوں۔ کہنے لگا کہ شیعہ یا سنیوں کی۔ میں نے جواب دیا :اعوذباللہ، تم بچوں کو کم عمری میں ہی شیعہ اور سنی کے چکر میں ڈالتے ہو؟اس نے پھر گھما پھرا کر وہی سوال کیا کہ تم کس قسم کی کتابیں شائع کرتے ہو۔ میں نے کہا بچوں کی کتابوں کیلئے ہی تو میں مصر آیا ہوں۔ خیر 10منٹ کی مختلف باتوں کے بعد اس نے میرے پاسپورٹ کو کلیئر کردیالیکن ایک مرتبہ کمال ہو گیا۔ دارالسلام قاہرہ کے مالک جناب عبدالقادر بکار نے ایسا بندوبست کیا کہ میرا استقبال جہاز کے دروازے پر ہوا۔ ایک اہلکار میرے نام کا موٹے الفاظ میں لکھا ہواکارڈ  لیکر کھڑا تھا۔ وی آئی پی سلوک ہوا  اور میں چند منٹوں میں باہر تھا۔
     ایک مرتبہ پھر مجھے مصر جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب میں نے قاہرہ میں دارالسلام کا اسٹوڈیو کھول رکھا تھا۔ ہمیں قرآن پاک کی انگلش میں ریکارڈنگ کروانا تھی۔ میں اچھی آوازوں کی تلاش میں تھا۔ امریکہ کی ایک ریاست (غالباً)نیوجرسی میں جمعہ پڑھا۔ خطیب کی آواز بڑی زبردست تھی۔ مجھے ایسی ہی صاف ستھری واضح آواز چاہیے تھی۔ میں نے سوچ لیا کہ اس خطیب کو میں نے قرآن پاک کی ریکارڈنگ کیلئے تیار کرنا ہے۔ وہ افریقی مسلمان تھا۔ عموماً افریقی مسلمان کی آواز پہچانی جاتی ہے۔میں ان کا نام نہیں لکھوں گا۔ نماز جمعہ کے بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ دار السلام کو خوب جانتے تھے۔ میں نے قرآن پاک کے انگلش ترجمہ کی ریکارڈنگ کے لیے بات کی۔ کہنے لگے کہ آپ کو تحریری جواب ارسال کردوں گا۔
    قارئین کرام!یہ کوئی 20 ,21 سال پرانی بات ہے۔ میں امریکہ سے واپس ریاض آ گیا۔ ان کو فون پر یادہانی کروائی۔ ان کافیکس ملا کہ میں 40 دنوں میںقرآن پاک کی ریکارڈنگ کروںگا۔ آپ نے میرا اور میری بیوی کا ویزہ ، ٹکٹ ،40روز ایک فائیو سٹار ہوٹل میں قیام اور غالبا ًڈھائی لاکھ ریال دینے ہوں گے۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے اس لیے بات آگے نہیں بڑھ سکی تاہم میں تلاش میں رہا ہے کہ مجھے کوئی اچھا انگلش ا سپیکر مل جائے جو مسلمان بھی ہوجس سے قرآن پاک کی انگلش ریکارڈنگ کروائی جا سکے۔
    ایک دن میں معمول کی ڈاک دیکھ رہا تھا کہ ایک سی وی پر میری نگاہ ٹک گئی۔ میرا نام عبدالکریم ہے۔ میں اسلام قبول کرنے سے پہلے امریکہ میں اسٹیج ایکٹر تھا، میں ڈرامے کرتا تھا۔ اسلام قبول کیا تو یہ کام چھوڑ دیا اور اسلامی کیسٹیں فروخت کرنے لگا ہوں۔ اگر آپکو میری ضرورت ہو تو فلاں تاریخ تک آپ مجھ سے امریکہ میں رابطہ کرسکتے ہیں۔فلاں تاریخ کے بعد میںمصر میں رہوں گا۔ مصر کا فون نمبر یہ ہے۔
     میں نے دوبارہ اس کا سی وی پڑھا۔ دل نے کہا کہ جس شخص کی تمہیں تلاش ہے لگتا ہے کہ یہ وہی ہے مگر نہ جانے اس کی آواز کیسی ہوگی۔ پھر خیال آیا جو امریکہ میں سٹیج ایکٹر رہا ہے اسکی آواز تو اچھی ہونی چاہیے۔ میں نے سی وی پر تاریخ دیکھی۔ امریکہ والی تاریخ تو گزر چکی تھی۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں دل نے کہا کہ لگتا ہے کہ اس امریکی نے مصری خاتون سے شادی کر رکھی ہے اور اب مصر میں مقیم ہے۔
     اللہ کا نام لیا ،بسم اللہ پڑھی اور مصر کا فون نمبر گھمانا شروع کردیا۔ایک خاتون نے فون اٹھایا۔ وہ حسب توقع عبدالکریم کی بیوی تھی۔ میں نے اس کے پاس اپنا نمبر چھوڑا کہ جب عبدالکریم گھر آئے تو اسے کہنا کہ وہ مجھے فون کرلے۔
    دوبارہ میرا رابطہ ہوا تو میں نے عبدالکریم سے کہا کہ وہ مجھے کچھ ترجمہ ریکارڈ کرکے بھیجے، میں اس کی آواز سننا چاہتا ہوں۔ یہ صبر آزما مرحلہ تھا۔ اس نے ڈاک کے ذریعہ مجھے ایک کیسٹ بھجوا دی۔ میں نے آواز پسند کی اور لوگوں سے بھی مشورہ ہوا اور میں نے عبدالکریم کو اس عظیم کام کیلئے منتخب کر لیا۔
     عبدالکریم سے ملنے کے لیے میں مصر کے ایئرپورٹ پر بیٹھا ایمیگریشن آفیسر کے کڑوے کسیلے اور لایعنی سوالات کا جواب دے رہا تھا۔ یہ حسنی مبارک کا دور تھا۔ ہمارے جاننے والے کتنے ہی مصری جب اپنے وطن چھٹی جاتے تو داڑھی منڈوا کر جاتے تھے۔ میں نے ایمیگریشن آفیسر سے کہا کہ میں تمہارے ملک میں دفتر کھولنا چاہتا ہوں۔ بزنس کرنا چاہتا ہوں اور تم لوگ ایک ڈیڑھ گھنٹے سے میرا وقت ضائع کر رہے ہو۔ یہ سن کر اس کے رویہ میں تبدیلی آگئی۔ کہنے لگا کہ فکر نہ کرو آج کے بعد تمہارے ساتھ یہ سلوک نہ ہوگا۔
     میں عبدالکریم کو ملنے منصورہ گیا۔میرا دریائے نیل کے کنارے ایک ہوٹل میں 2 راتوں کا قیام تھا۔ عبدالکریم بلاشبہ افریقی ممالک سے تعلق رکھتا تھا مگر دل کا اجلا تھا۔ اسکا عقیدہ بڑا اچھا ہے۔ ہم نے اس منصوبے کی تمام تفاصیل طے کیں اور ریکارڈنگ کا کام شروع ہو گیا۔ وہ تنخواہ کے اعتبار سے بڑا سستا تھا۔ منصورہ میںا سٹوڈیو بنایا۔ یہ چھوٹا شہر ہے ۔بعدازاں ہم نے قاہرہ میں بڑا فلیٹ لے کر وہاں ادارہ منتقل کردیا۔
     منصورہ سے قاہرہ بہت زیادہ دور نہیں ۔عبدالکریم سے سارے معاملات طے پا گئے تو میں نے واپس جانے کے لیے عبدالکریم سے کہا کہ مجھے ٹیکسی کروا دو۔ اگر کوئی دیندار ساتھی بطور ڈرائیور مل جائے تو راستے میں اس سے گپ شپ ہوجائے گی۔ منصورہ سے ہم قاہرہ کیلئے نکلے ۔سڑک بہت اچھی نہ تھی۔ راستے میں گاؤں بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے ملک میں ہوتے ہیں۔ گھروں میں بعض آدھے پلستر ہوئے تھے آدھے باقی تھے۔اس طرح حد نگاہ تک سبزہ ۔ میں اپنے ڈرائیور کے ساتھ گفتگو میں مگن رہا۔ ہمارے پروگرام میں طنطا شہر میں تھوڑی دیر کے لیے رکنا تھا۔ وہاں ہمارے دوست’’ دار الصحابہ‘‘ کے مالک استاد ابراہیم الشناوی کے ساتھ ملاقات تھی۔ دارالصحابہ سلفی کتب شائع کرنے کا معروف ادارہ ہے۔ اس کے مالک کے ساتھ میری ملاقات قاہرہ بک فیئرمیں ہوئی تھی۔ ابراہیم الشناوی مصری فضائیہ میں پائلٹ تھے ۔کیپٹن کے رتبے پر پہنچے تو اسلام کی خدمت کاجذبہ سمایا۔ بس پھر کیا تھا دارالصحابہ کے نام سے نشرواشاعتی ادارہ بنا ڈالا۔ بچوں کی کتابیں شائع کرنا شروع کیں۔ ہم پہلی ہی ملاقات میں ایک دوسرے کے دوست بن چکے تھے۔ آج وہ طنطا میں میرے منتظر تھے۔ میرا خیال تھا کہ ہم بآسانی مغرب سے پہلے طنطا پہنچ جائیں گے۔ مغرب کی نماز ابراہیم کے ساتھ ہی ادا کریں گے۔ شہر میں داخل ہوئے تو سڑک پر بے حد رش تھا۔ آگے بڑھے تو ریلوے پھاٹک بند نظر آیا۔ بس پھر کیا تھا دونوں طرف گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ اس رش سے نکلتے اور ابراہیم الشناوی کے دفتر پہنچنے میں مغرب کی نماز نکل گئی۔
     ابراہیم الشناوی نے بڑا خوبصورت استقبال کیا۔ ہم بیٹھ گئے مغرب کی نماز ادا نہ کی تھی۔ میں نے ابراہیم سے کہا کہ ہم نے مغرب ابھی نہیں پڑھی۔ بے چینی ہو رہی ہے۔ پہلے نماز پڑھیں گے پھر گفتگو کا مزہ آئے گا۔ کہنے لگا: وہ سامنے والی بلڈنگ کے تہ خانہ میں مسجد ہے۔ آپ نماز اداکرآئیں میں آپ کے انتظار میں ہوں۔
    میں اور ڈرائیور مسجد میں داخل ہوئے تو اس کے کونے میں کچھ بوڑھے لوگ خوش گپیاں کر رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں اشارہ کیا کہ اس طرف آپ دوسری جماعت کروا لیں۔ اب ڈرائیور مجھے کہہ رہا کہ آپ جماعت کروائیں جبکہ میںاس مصری کی قرأت سننے کا مشتاق تھا۔ تھوڑی سی بحث کے بعد وہ مصری ڈرائیور امامت کیلئے رضامند ہوگیا۔
     اس نے قرأت شروع کی، سبحان اللہ قرآن پڑھا، یقین جانئے لطف آ گیا۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت کم ہی اتنی خوبصورت آواز سنی تھی۔ قرآن پاک کی قرأت دلوں پر اثر رکھتی ہے۔ میں جھوم اٹھا۔ نماز مغرب تھی ،چھوٹی سورتیں پڑھی گئیں مگر مزہ آ گیا۔ ادھر وہ بوڑھے بزرگ بھی تلاوت سن رہے تھے۔ ہم نے نماز ختم کی تو وہ زور زور سے کہنے لگے: یا شیخ تمہاری مہربانی ہمیں عشاء کی نماز پڑھا کر جانا۔ نوجوان ڈرائیور نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ میں تو ان کا مکلف ہوں۔میں تو ڈرائیور ہوں۔ جب یہ جانے کا کہیں گے میں چل پڑوں گا۔ اب وہ مجھ سے مخاطب تھے کہ آپ اسے اجازت دیں کہ یہ ہمیں عشاء کی نماز پڑھا کر جائے۔ میں نے کہا کہ کیوں نہیں میں خود اس کی تلاوت سننے کا خواہشمند ہوں۔
     قارئین کرام !میں ان بوڑھوں سے باتیں کر رہا تھا اور مجھے اللہ کے رسول کی حدیث یاد آ رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب قرآن مجید کے ذریعے بعض قوموں کو عروج اور بعض کو زوال عطا فرماتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک ڈرائیور کی جو حیثیت ہوتی ہے اس سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ اولاً ان کی اکثریت نماز نہیں پڑھتی اور اگر پڑھتی ہے تو ان کو امامت کے مصلے پر کون کھڑا کرتا ہے؟ اور ادھر ہم بڑی خوشی سے اس ڈرائیور سے کہہ رہے تھے کہ تم نے عشاء کی جماعت کروانا ہے۔
(جاری ہے)
 

شیئر: