محمد مبشر انوار
تیسری عالمی جنگ سے متعلق بالعموم رائے یہی ہے کہ اس کا آغاز کشمیر میں جاری ظلم و ستم سے ہو گا تا وقتیکہ یہ معاملہ کشمیر ی عوام کی امنگوں یا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہ ہوا۔ دوسری طرف کشمیر پر قابض ہند کا یہ خیال ہے کہ وہ بزور شمشیر کشمیریوں کو ہمیشہ محکوم رکھ سکے گا اور ہمیشہ کی طرح موجودہ ہندوستانی حکومت نے بھی آمدہ انتخابات میں کشمیر کارڈ کے ساتھ ساتھ پاکستان مخالف جذبات ابھار کر ووٹ حاصل کرنے کی جستجو کرتے ہوئے پلوامہ اور بعد ازاں پاکستان پر ’’گرم تعاقب‘‘ کرتے، سرجیکل اسٹرائیک کر کے اپنے تئیں ’’سپرپاور‘‘ ہونے کا جھوٹا تاثر پھیلانا چاہا۔ ابھی تک اس سرجیکل اسٹرائیک کے نتائج ہندوستانی حکومت کے گلے پڑے ہوئے ہیںکہ ایک طرف پاکستان کی بہادر مسلح افواج نے اس سرجیکل اسٹرائیک کے غبارے سے ،دوجارح مگ طیارے تباہ کرکے،ہوا نکالی تودوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے جذبہ خیر سگالی اور امن کی خاطر ہندوستانی ہوا باز ابھی نندن کو رہا کردیا۔ ہندوستانی میڈیا مسلسل اس کو ہند کی فتح قراردیتے ہوئے پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے سے تعبیر کر رہا ہے۔ سنجیدہ ہندوستانی میڈیا کا رویہ دیکھیں تو وہ بالکل مختلف ہے اور وہ حقائق کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان کو ایک مدبر کے روپ میں دیکھ رہے ہیںاور اپنے وزیراعظم نریندر مودی کو اقتدار کا بھوکا سیاستدان تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ افسوس کی بات اتنی ہے کہ آج تک ایسی جتنی بھی کارروائیاں ہندوستانی سر زمین پر ہوئی ہیں،ہند نے بلا تامل پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا ہے مگر بعد ازاں غیر جانبدارانہ تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ ایسی کارروائیوں میںہند ہی کی ایجنسیاں اور اس کے قانون نافذ کرنے والے اداروں یا سیاستدانوں کی ملی بھگت کا نتیجہ ثابت ہوئیں۔ موجودہ کشیدگی اور جارحیت کے پیچھے بھی یہی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مودی سرکار بذات خود اس حملے میں ملوث رہی ہے،جس کا ثبوت ہند کے انتہا پسند سیاستدان(شائد اجے ٹھاکر)کا ببانگ دہل یہ کہنا کہ مودی سرکار کو اس حملے کا 2 ہفتے قبل ہی علم تھا اور اجیت دوول سے اگر تفتیش کی جائے تو وہ سب حقائق اگل دے گا۔ علاوہ ازیں ایک ایسی آڈیو کال بھی منظر عام پر آ چکی ہے،جس میں واضح ترین الفاظ میں ہندوستانی عوام کو بیوقوف بنانے کی بات ہو رہی ہے اور ساتھ بم دھماکے کی بات چیت کی جا رہی ہے،جس میں واضح طور پر پلوامہ کا نام لیا گیاہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہند نے پاکستان پر جو سرجیکل اسٹرائیک کے نام پر ڈرامہ کیا۔ پہلی کوشش میں گو کہ اسے اتنی کامیابی ملی کہ اس کے ہواباز بغیر کسی نقصان کے پاکستان کی فضائی حدود سے محظوظ ہوتے،اپنا پے لوڈ بغیر کسی ٹارگٹ کو ہٹ کئے، بحفاظت واپس اپنے ٹھکانوں پر چلے گئے جو یقینی طور پر پاکستان کے دفاعی اداروں کی غفلت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ ہندوستانی ہوا باز جب چاہیں،پاکستان کی فضائی حدود کو پامال کر سکتے ہیں لیکن ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی ہند کو لے ڈوبی۔ یہاں 2 سوال پیدا ہوتے ہیں کہ آیا واقعی یہ ہند کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی تھی یا اس کے منصوبے کا فیل ہونا تھا؟بعد کے واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ مؤخرالذکرمیں زیادہ وزن ہے کہ جو تماشہ ،جو آگ ہند بھڑکانا چاہتا تھا،پہلی کامیاب کوشش کے بعد وہ بھڑک نہ سکی اور دوسرے پاکستان نے فوری رد عمل دینے کی بجائے،وقت اور جگہ کا انتخاب خود کرنے کا فیصلہ کرکے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ جب اگلے دن ،دن کی روشنی میں ہندوستانی ہوابازوں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور اپنے 2 مگ طیارے تباہ اور ہواباز قیدی بنوا لئے۔اس وقوعہ کے بعد وقتی طور پر ہند سرکار اور میڈیا کو سانپ سونگھ گیا۔ دوسری طرف ہندوستانی سفارتحانہ نے ہواباز کی واپسی کا مطالبہ کر دیا، جسے وزیراعظم پاکستان نے نہ صرف فوری طور پر منظور کر لیا بلکہ غیر مشروط طور پر اس کو واقعتاً رہا کر دیا گیا۔ خیر سگالی کے اس جذبہ نے بھی ہندوستانی سرکار کی امنگوں پر اوس ڈالی تو اس نے اپنی جارحیت کو مزید جارحانہ کر دیا۔کشمیر پر اس کی توپوں کے دھانے کھل کر برسنے لگے ،اسے جیسے منہ زوری کا پروانہ ہاتھ لگ گیااور جواب میں اس نے شاکر اللہ شہید کی لاش کا تحفہ واہگہ بارڈر پر وصول کروایا۔ وزیر اعظم پاکستان کے اس جذبہ خیرسگالی پر اندرون ملک مسلسل تنقید ہو رہی ہے بالخصوص مخالف سیاسی جماعتوں کے ووٹرز دل کھول کر بھڑاس نکال رہے ہیں کہ اگر یہی کام بے نظیر،نواز شریف یا زرداری کرے تو ’’غدار‘‘ کہلاتے ہیں لیکن اگر لاڈلا کرے تو زبانیں کیوں گنگ ہیں؟گزارش ہے کہ بے نظیر ،نواز شریف یا زرداری کے ایسے عمل پر انہیں غدار کہنا غلط تھا تو آج عمران پر اسی عمل کے نتیجے میں تبرے بھیجنے کی کیا تُک؟کل تک جس عمل کی آپ مزاحمت کر رہے تھے اگر آج ،بقول آپ کے ٹھیک ہو گیا،تو بجائے شکر کرنے کے شکوے کیوں؟صرف اس لئے کہ بے نظیر یا نواز شریف اقتدار میں نہیں؟آپ اگر واقعتاً پاکستان کے حوالے سے سوچتے،سول قیادت کی بالا دستی کے حوالے سے سوچتے تب بھی شکر ادا کرنا ہی بنتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ کچھ متوالے یہاں تک کہتے ہیں کہ درحقیقت پاکستان نے ہند کی دھمکیوں سے ڈر کرہندوستانی ونگ کمانڈر کو غیر مشروط طور پر رہا کر دیا ہے۔ نجانے ایسی لاف زنی کرتے ہوئے انہیں شرم کیوں نہیں آتی کہ افواج پاکستان کس کی دھمکی سے ڈریں گی؟البتہ یہ حقیقت ہے کہ اس ایڈونچر میں پاکستان اور افواج پاکستان نے خود کو بلا شک و شبہ پرامن ثابت کر دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ببانگ دہل ساری دنیا کو یہ پیغام بھی دیدیا ہے کہ پاکستان کا دفاع کرنے کی نہ صرف صلاحیت،اہلیت و قابلیت ہے بلکہ کر بھی سکتے ہیں۔ فیصلہ ہند پر ہے کہ وہ جنگ چاہتا ہے یا امن۔