فہد غزاوی ۔ سعودی میڈیا
اس ہفتے بھی ایران کا منظر نامہ علاقائی اور بین الاقوامی ممالک کی دلچسپی کا باعث بنا رہا۔ امریکہ کا یہ مطالبہ کہ لبنانی حکومت اپنے ملک میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو لگام لگائے، دھماکہ خیز بن گیا۔ دوسر ی جانب امریکہ نے ایرانی عدلیہ کا سربراہ ابراہیم رئیسی کو بنانے پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے شرمناک قرار دیدیا۔ تیسری جانب ایران نے یہ کہہ کر کہ شام میں تو اسکی کوئی فوج ہے ہی نہیں، ساری دنیا کو ششدر و حیران کردیا۔ اسی دوران ایران میں بدعنوانی کے انسداد کی لہر تیزی سے پکڑنے لگی ہے جبکہ انسانی حقوق کی رپورٹ میں ایران کی مذمت کی گئی ہے اور پانی کی قلت اور خشک سالی نے ایران میں ماحولیاتی بحران کھڑا کردیا ہے۔ اس ہفتے کے اہم واقعات یہ ہیں۔
٭ امریکی وزیر خارجہ کے معاون برائے امور مشرق قریب ڈیوڈ سیٹر فیلڈ نے کہا ہے کہ لبنان کی نئی حکومت کوانحطاط پذیر معیشت کو ڈگر پر لانے کیلئے سخت فیصلے کرنا ہونگے۔ امریکہ لبنانی عوام کی مدد کرتے رہنے کا مشتاق ہے تاہم ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ سے خود اہل لبنان کو نمٹنا ہوگا۔ شام میں 8سالہ جنگ نے لبنان کے اقتصادی مسائل میں شدت پیدا کردی ہے۔ بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی ہے۔ شرح نمو پھسپھسی ہے۔ سرکاری قرضے 85ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جو مجموعی قومی پیداوار کا 155فیصد ہیں۔10 لاکھ شامی پناہ گزین لبنان کےلئے مسئلہ بن گئے ہیں۔ یہ اسکی کل آبادی کا چوتھائی ہیں۔
٭ امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان رابرٹ بیلاڈینو نے ٹویٹر پر اپنے اکاﺅنٹ میں تحریر کیا ہے کہ ایرانی عدلیہ کے سربراہ کے طور پر ابراہیم رئیسی کی تقرری شرمناک ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ صاحب سیاسی قیدیوں کے اجتماعی قتل کے عمل میں ملوث ہیں۔ ایران غیر منصفانہ عدالتیں قائم کرکے قوانین کا مذاق اڑا رہا ہے۔ قیدیوں کو غیر انسانی ماحول میں رکھا جارہا ہے۔ رئیسی کی تقرری پر ایران کے اندر اور باہر انسانی حقوق کے حلقوں میں زبردست بحث چھڑ گئی ہے ۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ رئیسی کی تقرری پر سراپا احتجاج بن گئے ہیں۔
٭ چند برس قبل رئیسی کا نام اپوزیشن رہنماﺅں کو موت کی سزا دینے میں ملوث ایرانی عہدیداروں کی فہرست میں اس وقت سامنے آیا تھا جب معروف مذہبی پیشوا آیت اللہ منتظری نے اپنے ایک وڈیو میں تذکرہ کیا تھا کہ گزشتہ صدی کے 8ویں عشرے میں ہزاروں سیاسی اپوزیشن رہنماﺅں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس واقعہ کو 1988ءکے دوران ”سیاسی قیدیوں کے قتل عام“ کا نام دیا گیا تھا۔ آیت اللہ منتظری نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں ایرانی نظام پر کڑی نکتہ چینی کی تھی۔ انہوں نے مذکورہ قتل عام کے واقعہ کو ایران کی تاریخ کے بدترین سیاسی جرم کے طورپر پیش کیا تھا۔رئیسی اپوزیشن رہنماﺅں کو قتل کرنے والے عدالتی گروپ میں شامل تھے۔ اسے ”موت کے گروپ“ کا نام دیا گیا تھا۔ تب سے وہ انسانی حقوق اور ایران میں اقلیتو ںکے حقوق کی خلاف ورزیوں کے تناظرمیں بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور بعض یورپی حکومتوں کے یہاں تنقید کا ہدف بنتے رہے ہیں۔ چند روز قبل ایرانی عدلیہ کے ترجمان غلام حسین نے اعلان کیا کہ ابراہیم رئیسی ، صادق لاریجانی کے جانشین ہونگے۔ وہ 2017ءکے صدارتی انتخابات میں حسن روحانی کے حریف تھے مگر وہ انتخاب ہار گئے تھے۔
ایرانی دفتر خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے یہ کہہ کر دنیا کو حیرت زدہ کردیا کہ شام میں ایران کی کوئی فوج نہیں۔ہمار ے بعض فوجی مشیر کے طور پر وہا ںکام کررہے ہیں۔ جب تک شامی حکومت، عوام اور فوج ہم سے یہ خدمت لیتے رہنا چاہے گی تب تک ہمارے مشیر وہاں رہیں گے۔ شام اور ایران نے اگست 2018 ءکے دوران فوجی تعاون کا ایک معاہدہ کرکے شام میں ایرانی افواج کی موجودگی کو قانونی رنگ دیدیا تھا۔ دمشق میں ایران کے آرمی اتاشی ابو القاسمی علی نجات نے بتایا کہ شام میں ایرانی فوجی مشیران کی مسلسل موجودگی دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی اور تکنیکی معاہدے کا حصہ ہے۔ ایران شام میں اپنے فوجی دستوں کی موجودگی کی مسلسل تردید کررہا ہے جبکہ شامی انقلا ب کے بعدسے ایرانی مقتولین کے جنازے پے درپے تہران پہنچ رہے ہیں۔ 2000 سے زیادہ جنازے ایران آچکے ہیں۔ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ یہ بیشتر ایرانیو ںکے ہیں۔
ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر محمد علی جعفری نے جنوری میں بیان دیا تھا کہ انکا ملک شام سے اپنی افواج نہیں نکالے گا۔ بنیامین نتنیاہو کی دھمکی کے بعد جعفری نے ا سرائیل پر میزائل حملے کی دھمکی دیدی تھی مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ ایران اور شامی نظام ابھی تک ایک دوسرے کو مسلسل دھمکیاں دینے کے باوجود محاذ آرائی سے کوسوں دور ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭