وسعت اللہ خان
دنیا کا کوئی مذہب یا نظریہ ایسا نہیں جو ضرورت مندوں کی دامے درمے قدمے مدد سے روکتا ہو یا اس کی حوصلہ افزائی نہ کرتا ہو ۔اسلام میں اس جانب طرح طرح سے توجہ دلائی گئی ہے ۔بھلے وہ زکوٰۃ جیسا بنیادی رکن ہو ، صدقے ، خیرات پر بار بار زور ہو یا ہمسائے کے حقوق اور ضروریات کو پیشِ نظر رکھنے کی تلقین ہو۔دنیا میں دوسرے کی مدد اور خیال رکھنے کا کتنا رجحان ہے ؟ اس بابت ٹھیک ٹھیک اعداد و شمار تو شاید کبھی بھی نہ سامنے آ سکیں کیونکہ مدد اعلانیہ بھی ہوتی ہے اور پوشیدہ بھی۔ البتہ چیرٹی ایڈ فائونڈیشن کے عالمی انڈیکس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس دنیا میں تمام تر سفاکی کے باوجود انسانیت انفرادی و اجتماعی طور پر کس قدر زندہ ہے۔چیرٹی ایڈ فائونڈیشن کا انڈیکس 3 بنیادی سوالات کے گرد گھومتا ہے۔کیا آپ نے سال بھر کے دوران کسی اجنبی کی مدد کی ؟ کیا آپ نے کسی ضرورت مند کی مالی اعانت کی ؟ کیا آپ نے کسی انفرادی و اجتماعی فلاحی مقصد کے لئے رضاکارانہ اپنا کچھ ذاتی وقت دیا؟ اس اعتبار سے سالانہ انڈیکس کے مطابق 2 ارب 20 کروڑ انسانوں نے اپنا فلاحی فرض کسی اجنبی کی مدد کر کے ادا کیا۔ یہ مدد راستہ بتانے سے لے کر کھانا کھلانے تک کسی بھی شکل میں ہو سکتی ہے ۔ ایک ارب 40 کروڑ انسانوں نے کسی نہ کسی فرد یا ادارے کی مالی مدد کی ۔ایک ارب انسانوں نے رضاکارانہ طور پر اپنا ذاتی وقت دیا ۔یعنی دنیا کی 9 ارب آبادی میں سے آدھی آبادی نے کسی نہ کسی شکل میں دوسرے کی مدد کی۔اقوامِ متحدہ کے ملینیم گول کے مطابق اگر اس دنیا سے لاچاری ، بیماری اور غربت کا خاتمہ مقصود ہے تو ہر ملک کو اپنی قومی آمدنی کا کم ازکم 0.7 فیصد فلاحی کاموں کیلئے دان کرنا چاہئے ۔اس کسوٹی پر اب تک صرف 5 ممالک ہی پورے اتر سکے ہیں۔لکسمبرگ ، ہالینڈ ، ڈنمارک ، ناروے ، سوئیڈن جبکہ فن لینڈ اور برطانیہ اس ہدف کو تقریباً چھو رہے ہیں ۔جو لوگ دوسروں کی مدد نہیں کرتے ایسا نہیں کہ وہ سنگ دل ہیں یا مدد کرنا نہیں چاہتے۔مگر ان میں سے بیشتر شاید اس خیال سے ہاتھ روک لیتے ہیں کہ کیا فائدہ خیرات یا عطیہ دینے کا ۔میرے ہزار 5 سو سے غربت یا مصائب تو ختم نہیں ہوں گے۔یہ کام تو ریاستوں کے کرنے کے ہیں ۔ شاید ایسا نہیں ہے۔کوئی بھی رقم چھوٹی بڑی نہیں ہوتی کھوٹا سکہ بھی کام میں آ جاتا ہے۔مثلا ًآپ کے ڈھائی ڈالر سے 2غریبوں کو وہ مچھر دانی میسر آ سکتی ہے جو انہیں ملیریا سے سال بھر بچا سکے۔آپ کے 15ڈالر سے کسی کو نگاہ کی اچھی سی عینک مل سکتی ہے ۔آپ کے 20ڈالر میں 23انسانوں کو پینے کا صاف پانی سال بھر کیلئے دستیاب ہو سکتا ہے۔30ڈالر میں ایک زچہ کو اسپتال اور پھر اسپتال سے گھر دوائوں سمیت لایا لے جایا جا سکتا ہے۔ایسی بے شمار ضرورتیں ہیں جو آپ کی جانب سے اکٹھی ہونے والی معمولی رقم سے پوری ہو سکتی ہیں۔بس آپ کو یہ دھیان دینا ہوگا کہ خیرات کے نام پر اندھا دھند لٹانے کے بجائے جس فرد یا ادارے کو آپ دان کر رہے ہیں اس کے بارے میں آپ کو یقین ہو کہ یہ واقعی ضرورت مند ہے یا ایمانداری سے کسی اور کی ضرورت پوری کرنے کے قابل ہے ۔اگرچہ پاکستان مدد و ایثار کے عالمی انڈیکس میں 92 نمبر پر ہے مگر پاکستان میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس و ٹیکنالوجی کے ایک سروے کے مطابق لوگوں میں پچھلے 20برس کے دوران صدقات ، عطیات و خیرات دینے کے رجحان میں 3 گنا اضافہ ہوا ہے اور اس مد میں رقم 1998ء میں دئیے گئے 70 ارب روپے سے بڑھ کے 240ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔اس میں سے 68 فیصد رقم ضرورت مندوں کو براہِ راست اور 30فیصد رقم مدارس و مساجد کے ذریعے دی گئی۔جن دیگر اداروں کو رقم دی گئی ان میں ایدھی فائونڈیشن ، گردوں کی پیوند کاری کا ادارہ ایس آئی یو ٹی اور غریب طبقات کے در تک معیاری تعلیم پہنچانے کیلئے کوشاں سٹیزن فائونڈیشن جیسے متعدد ادارے شامل ہیں۔اگر دان کرنے والے خواتین و حضرات ان جیسے اداروں کو مزید رقم دینے پر توجہ کریں تو اس رقم کا زیادہ مربوط اور بہتر استعمال ممکن ہے ۔براہ راست کسی فرد کو رقم دینے سے وقتی طور پر تو اس کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور ہنگامی مدد کرنی بھی چاہیئے مگر ایسے اداروں کو رقم دینے سے کہ جنہیں آپ کا اعتماد حاصل ہو آپ کی مدد یکجا ہو کر زیادہ موثر اور دیرپا نتائج پیدا کر سکتی ہے ۔اس طریقے سے یہ ادارے نہ صرف مزید مستحکم ہو سکتے ہیں بلکہ اپنی سرگرمیوں کو اور پھیلا سکتے ہیں۔دنیا بھر میں بھاری منافع سمیٹنے والی مقامی اور کثیر القومی کمپنیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے منافع کا کم ازکم ایک فیصد غربت ، بیماری اور ماحولیاتی ابتری سے نبرد آزما اداروں ، افراد اور ان کی جدو جہد پر صرف کریں۔اس ذمہ داری کو کاروباری دنیا میں کارپوریٹ ریسپانسبلٹی کہا جاتا ہے۔اس کی سب سے روشن مثال بل اینڈ ملنڈا گیٹس فائونڈیشن ہے ۔اس کا امدادی فنڈ 50ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے ۔اس فنڈ میں بل گیٹس کے 30ارب ڈالر اور ایک اور مشہور دانی وارن بوفٹ کے ساڑھے 3 ارب ڈالر بھی شامل ہیں۔یہ فائونڈیشن دنیا بھر میں بھوک ، بیماری ، جہالت اور ماحولیاتی ابتری کے خلاف جنگ میں مصروف اداروں کی مدد کر رہی ہے۔پاکستان میں بھی ایک سے ایک کھرب پتی بین الاقوامی و مقامی کاروباری ادارے اور کمپنیاں موجود ہیں۔اگر وہ اپنے سالانہ منافع کا ایک فیصد بھی انسانیت کیلئے وقف کردیں تو کروڑوں کا بھلا ہو سکتا ہے اور وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں کم ازکم 40فیصد آبادی خطِ غربت کے بوجھ تلے دبی پڑی ہے۔اگر یہ آبادی خطِ غربت سے اوپر آ جائے تو جو پیسہ ان پر آج لگایا جائے گا کل وہ پھران لوگوں کی قوتِ خرید کی شکل میں لگانے والے کے پاس لوٹ کر آجائیگا ۔اسے کہتے ہیں طویل المیعاد منافع بخش سرمایہ کاری۔