Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

استنبول میں عالمی یوم خواتین منانے والی 200 مظاہرین زیرحراست

شہر کے مرکز میں واقع تقسیم سکوائر پر کئی سال سے احتجاج پر پابندی ہے۔ فوٹو اے ایف پی
استنبول پولیس نے سنیچر کی رات سخت سیکیورٹی کے حصار میں شہر کے مرکز میں عالمی یوم خواتین منانے والی3,000 سے زائد خواتین میں سے تقریباً 200 کو حراست میں لے لیا۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق منتظمین نے بتایا ہے ’شہر کے مرکز میں واقع تقسیم سکوائر میں کئی سال سے احتجاج پر پابندی عائد ہے جہاں یہ خواتین پُرامن مارچ کر رہی تھیں۔‘
استنبول کے مرکزی علاقے کو اس قسم کے احتجاج کے موقع پر عام طور پر رکاوٹوں سے گھیر دیا جاتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں حکام نے سخت سیکیورٹی کے باوجود قریبی علاقوں میں ریلیوں کو برداشت کیا۔
’فیمینسٹ نائٹ مارچ‘ کے عنوان سے خواتین کی اس ریلی کا آغاز غروب آفتاب کے وقت تقسیم سکوائر کے قریب سے ہوا تھا۔
ریلی میں شامل متعدد خواتین نے جامنی رنگ کا لباس پہن کر بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر ’فیمینسٹ جدوجہد زندہ باد‘ کے علاوہ ’ہم خاموش نہیں ہوں گی، ہم خوفزدہ نہیں ہوں گی اور ہم اطاعت نہیں کریں گی‘ جیسے نعرے درج تھے۔
ریلی کے منتظمین نے بتایا ہے ’ ریلی کسی ناخوشگوار واقعے کے بغیر ختم ہو رہی تھی اسی دوران پولیس نے مظاہرین کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔
عورت مارچ کی ایسی ویڈیوز بھی پوسٹ کی گئی ہیں جن میں مظاہرہ کرنے والیوں کو زبردستی ہجوم سے باہر گھسیٹتے ہوئے دیکھا جا سکتاہے۔

’فیمینسٹ نائٹ مارچ‘ خواتین ریلی کا آغاز  تقسیم سکوائر کے قریب سے ہوا۔ فوٹو اے ایف پی

مارچ کے منتظمین نے اپنےایکس اکاؤنٹ پر لکھا ہے’جب فیمینسٹ_نائٹ_مارچ پُرامن طور پر ختم ہو گیا اور خواتین بکھر گئیں تو پولیس نے تقریباً 200 خواتین کو حراست میں لے لیا جو اشتعال انگیزی ہے۔‘
خواتین مظاہرین کی گرفتاری پر حکام کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں آیا۔
اس سے قبل استنبول کے ایشیائی علاقے ’کادیکوئے‘ میں بھی سیکڑوں خواتین بینرز اٹھائے احتجاج کے لیے جمع تھیں جو گلیوں میں مارچ کر رہی تھیں۔

ریلی میں شامل خواتین نے جامنی لباس پہن کر بینرز اٹھا رکھے تھے۔ فائل فوٹو اے پی

ڈسک ٹریڈ یونین کی چیئرپرسن ارزُو چرزیکوغلو نے بتایا ’ خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے، استنبول کنونشن کی توثیق اور ایسی سماجی پالیسیوں کے مطالبے کے ساتھ جمہوریت، برابری اور امن کے لیے ہماری جدوجہد جاری ہے۔‘
ترکیہ میں خواتین کے قتل کے سرکاری اعداد و شمار جمع نہیں کیے جاتے جب کہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اخباری رپورٹس سے قتل اور دیگر مشکوک اموات کا ڈیٹا اکٹھا کر کے یہ کام انجام دیتی ہیں۔

مارچ پُرامن ختم ہوا تاہم پولیس نے 200 خواتین کو حراست میں لے لیا۔ فوٹو اے ایف پی

’وی ول سٹاپ فیمیسائیڈ‘آرگنائزیشن  کے مطابق مارچ 2021 میں ترکی کے استنبول کنونشن سے علیحدہ ہونے کے بعد سے کم ازکم 1318 خواتین مردوں کے ہاتھوں قتل ہو چکی ہیں۔
 

 

شیئر: