عنبرین فیض احمد ۔ ینبع
ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہماری زندگی میں بصری، سمعی بیماریاں اور دیگر مسائل اس قدر بڑھتے کیوں جارہے ہیں؟ کیا اس میں ہاتھ ہماری سہولت پسندی کا تو نہیں؟ جہاں ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں کو سہل پسند اور آرام دہ بنادیا ہے وہیں ہمیں بہت سے نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دن بدن بڑھتی گاڑیوں اور مشینوں کے بے ہنگم شور سے سماعت کے مسائل پیدا ہورہے ہیں اور ان کے اندر سے نکلنے والا دھواں ہمارے لئے کتنا نقصان دہ ہوسکتا ہے، اسکا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ فضا میں موجود دھواں، زہریلی گیس ، گردو غبار اور نمی یہ سب مل کر ایک موٹی تہہ بن جاتی ہے جسے اسموگ کہا جاتا ہے۔سچ یہ ہے کہ تمباکو نوش فضائی آلودگی کے ”جرم“ میں شریک ہیں۔
اسموگ زہریلی ہوتی ہے اور یقینا انسانی صحت کیلئے نقصان دہ بھی ہے۔ انسانی صحت پر ماحول بڑی حد تک اثر انداز ہوتا ہے۔ ہم جس ماحول میں رہتے ہیں اس سے ہم اپنے آپ کو جدا نہیں رکھ سکتے۔ ماحولیات کی حفاظت تمام لوگوںکا فریضہ ہے۔ دریا، نہریں، سمندر، کھیت، کھلیان ، درخت، پودے، جنگلات، چرند ،پرند ، حشرات الارض وغیرہ ماحول کی حفاظت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور فضا کو آلودہ ہونے سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اسکی وجہ سے حیوانات، نباتات وغیرہ یہاں تک کہ انسانوں کی زندگی اور انکی صحت کی برقراری کا سامان ہوتا ہے۔ فطری ماحول کی حفاظت کے لئے قدرت کے بنائے ہوئے نظام فطرت کو برقرار رکھنے کیلئے ہر انسان کو کوشش کرنی چاہئے لیکن ہم تھوڑے سے مادی مفاد کی خاطر ان کو تباہ کرنے کیلئے تیا رہوجاتے ہیں۔
اس وقت زندگی کی گاڑی کا پہیہ بڑی تیزی سے گردش کررہا ہے۔ ماہ و سال پر لگا کر اڑ رہے ہیں۔ ہر کوئی نفسا نفسی کے عالم میں ہے۔ زندگی کی بھاگ دوڑ میں ہر کوئی ایسا کھویا ہوا ہے کہ ایک دوسرے تک کی خبر نہیں۔ کرہ ارض پر بڑھتی ہوئی آلودگی جہاں صحت اور زندگی کے مسائل پیدا کررہی ہے ،وہیں شور و غل انسانی صحت کیلئے مسائل پیدا کرنے کاایک بہت بڑا ذریعہ بھی بن رہے ہیں اور پھر شہروں میں تو کئی قسم کا شور ہے جس میں انسان بالکل الجھ کر رہ گیا ہے لیکن انسان اس میں اپنی زندگی کا سفر طے کررہا ہے۔ بے ہنگم ٹریفک ، موٹر سائیکل ، ریل گاڑیوں ، گاڑیوں، فیکٹریوں ، کارخانوں، مشینوں اور ہوائی جہازوں وغیرہ سے پیدا ہونے والا شور او ردھواں غیر محسوس طور پر انسانی صحت کے ساتھ حیوانات کی زندگیوں پر بھی بتدریج اثر انداز ہورہا ہے۔ انسانی صحت کے ساتھ ذہنی صحت بھی داﺅ پر لگی ہوئی ہے۔
یہ سائنسی ایجادات ہی ہیں جو انسانی معاشرے میں اسباب و راحت پہنچانے کا کام کررہی ہیں مگر ساتھ ہی ان کی زندگی کیلئے رحمت نہیں، زحمت بنتی جارہی ہیں کیونکہ مختلف قسم کی بیماریاں بھی انہی کی وجہ سے جنم لے رہی ہیں۔ پھر ہم سب کو یہ بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ تمباکو نوشی ہو یا بیڑی پینا، حقہ پینا ہو یا ، شیشے کا استعمال ہو یا پھر سگار کے کش لگانا، یہ ساری چیزیں ہی ہماری صحت کیلئے انتہائی مضر ہیں۔ اس کے باوجود لوگ بڑی شان سے ان مضر صحت اشیاءکے کش لگا کر دھواں اڑاتے ہیں۔ آسودگی کی تلاش میں یا پھر بوریت سے نجات کے خواہشمند تمباکو کی طرف ہاتھ تو بڑی تیزی سے بڑھاتے ہیں۔ ان چیزوں کے ہمیں عادی بنادینے والے مادے نکوٹین نے انسانی صحت اورزندگی کو یوں اپنی گرفت میں لے رکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ لعنت قابوسے باہر ہوچکی ہے۔ اب یہ حال ہوگیا ہے کہ بڑے تو بڑے چھوٹے بچے بھی اس را ہ پر چل نکلے ہیں۔سگریٹ کی قیمتوں میں اضافے، پیکٹوں پر انتباہی تحریریں اور پھر سگریٹ نوشی کے خطرات سے آگاہی کے باوجود لوگ سگریٹ نوشی پر اپنا وقت، پیسہ اور صحت سب برباد کررہے ہیں۔
سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سگریٹ نوشی دنیا بھر میں دنیا گزارنے کا مقبول ترین مشغلہ ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم ایک اسلامی ملک ہونے کے باوجود کہاں جارہے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کیوں بے راہ روی کا شکارہوتی نظر آرہی ہے۔ کسی کو یہ نہیں معلوم کہ فضائی آلودگی نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں اور پیڑ پودوں کو بھی متاثر کررہی ہے۔ فضائی آلودگی بنیادی طور پر نقصان دہ گیسوں ، دھوئیں، گردو غبار، ٹھوس ذرات کے صاف ہوا میں شامل ہونے سے پھیلتی ہے۔ پھر نقصان دہ گیسوں میں ایک کاربن مونو آکسائڈ ہے جو گاڑیوں او رکارخانوں کے دھوئیں میں شامل ہوتی ہے اور ہوا میں اسکی زیادتی انسان کے دل ، پھیپھڑوں او راعصابی نظام تک کو متاثر کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسری گیس سلفر کے مرکبات پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ پودوں کے سڑنے، گلنے ، آتش فشاں کے پھٹنے اور تھرمل پلانٹس سے نکلتی ہے۔ سلفر ڈائی آکسائڈ کی زیادتی بھی سانس لینے میں دشواری پیدا کرتی ہے۔ سر کاد رد اور آنکھوں میں جلن پیدا کرتی ہے ۔یہ گیس آبی بخارات کیساتھ مل کر تیزابی بارش پیدا کرتی ہے۔ نہ صرف انسانوں بلکہ پودوںاور عمارتوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہے اور پھر دیگر نقصان دہ گیسیں نائٹروجن آکسائڈ اور ہائیڈروکاربن ہیں اور پھر متعدد مرتبہ تمباکو نوشی کا دھواں بھی تمباکو پینے والے سے زیادہ دوسرے کے اندر جانے والے کو متاثر کرتا ہے کیونکہ اس میں نکوٹین جیسا زہریلا مادہ ہوتا ہے جو دل کی نالیوں اور خون کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ نکوٹین سے کئی دیگر امراض جنم لیتے ہیں جن میں کارڈیوویسکولر بیماریاں قابل ذکر ہیں۔
تمباکو کا دھواں ہر سال نہ جانے کتنے لوگوں کو موت کی نیند سلا دیتا ہے۔ ہر سال تقریباً 48فیصد لوگ سگریٹ کے دھوئیں کے باعث گلے ، منہ اور خوراک کی نالی کے کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ سانس کی نالی اور پھیپھڑوں کا کینسر بھی ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں آج کے دور میں اعصابی تناﺅ، ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی عوارض بھی سگریٹ نوشی کی بدولت پیدا ہوتے ہیںجن سے نوجوان طبقہ خاص طور پر متاثر ہے۔ ان کے علاوہ پیٹ کے امراض بھی جنم لیتے ہیں۔ سگریٹ نوشی سے سینے کی جلن، تیزابیت اور پھر بدہضمی تو عام ہے ۔
عام طور پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ سگریٹ پینے والے نسبتاً کم عمر پاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو تمباکو نوشی بھی ایک نشہ ہے اور اس کے باقاعدہ استعمال کی عادت پڑ جاتی ہے جس کے بعد اس سے چھٹکارا ممکن نہیںبلکہ بعض اوقات ناممکن ہوجاتا ہے مثلاً سگریٹ نوشی، سگار، حقہ کی صورت میں تمباکو کا استعمال ہوتاہے۔ تمباکو کے دھوئیں کی خاص لذت ہوتی ہے جو پینے والے کو اس کا عادی بنادیتی ہے اور پھر نہ ملنے پر اسے بے چینی سی محسوس ہوتی ہے۔
مجموعی طور پر جو لوگ کسی بھی قسم کی تمباکو نوشی کرتے ہیں خواہ وہ شیشہ پیتے ہوں، سگار کا استعمال کرتے ہوں، سگریٹ نوشی کرتے ہوں یا پھر حقہ استعمال کرتے ہوں، انکی صحت کمزور ہوجاتی ہے کیونکہ تمباکو نوشی کے کش لگانے کے دوران سانس کھینچنے سے پھیپھڑوں پر ایک طرف تو شدید زو رلگتا ہے تو دوسری جانب اس سے مسلز انتہائی کمزور پڑ جاتے ہیں اور پھر زہریلے دھویں کو اپنے اندر بھرنے سے سینے کے امراض، سانس کی بندش اور کینسر کی صورت میں موت کا پیغام لاتے ہیں۔ تمباکو نوشی سے دل کے پٹھوں پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بالاخر ہارٹ اٹیک تک نوبت جاپہنچتی ہے۔
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے، اس میں ایک معمر شخص سڑک کے کنارے حقے کے کش لگا رہا ہے اور خود کو تازہ دم محسوس کررہا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ آگ، دھواں اور پانی انکا آپس میں بڑا ہی گہرا تعلق ہے۔ جہاں آگ جلتی ہے، وہاں سے دھواں ضرور اٹھتا ہے۔ جہاں آگ ہوتی ہے وہاں پانی کا ہونا ضروری ہے۔ یہ تینوں چیزیں انسان کی بقاءکیلئے ناگزیر ہیں۔ آگ اور دھوئیں کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے بغیر دھوئیں کے آگ نہیں جلتی یعنی جہاں آگ ہے وہاں دھواں ہونا لازمی ہے ۔جس طرح پانی انسانی زندگی کیلئے بے حد ضروری ہے، اسی طرح آگ بھی انسان کیلئے بہت اہم ہے ۔گو کہ اس کے نقصانات بھی بہت ہیں مگر اس کے بغیر ہماری زندگی نامکمل ہے۔ اگر آگ نہ ہوتی تو ہمارے چولھے کس طرح جلتے اور ہم کوئی بھی چیز پکانے کا عمل کیسے مکمل کرتے لیکن اسی آگ کا استعمال غیر ذمہ دارانہ ہو جائے تو یہ ہماری زندگیوں میں تباہی مچا سکتا ہے او رلمحہ بھر میں ہماری زندگی کو راکھ میں بدل سکتا ہے۔ اس لئے ہمیں آگ اور دھوئیں سے دور ہی رہنا چاہئے۔ دھواں فضائی آلودگی پیدا کرتا ہے اس سے آکسیجن کی کمی واقع ہوتی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائڈ میں اضافہ ہوتا ہے اس لئے ہمیں زندگی میں ایسی چیزوں کا استعمال کم کرنا چاہئے جو دھواں پیدا کرتی ہوں۔
دنیا بھر میں اس حوالے سے قوانین بنائے جارہے ہیں۔اقوام متحدہ اور دوسرے اداروں کے تحت دنیا بھر میں دھوئیں کی مقدار کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ جوممالک کوئلے سے بجلی پیدا کرتے ہیں یا کوئلے کی مدد سے کارخانے وغیرہ چلاتے ہیں، ان پر پابندی عائد کی جارہی ہے تاکہ ایسی چیزو ںکا کم سے کم استعمال ہو جن سے دھواں پیدا ہوتا ہے او رماحول پراگندہ کرتا ہے ۔اس لئے حکومت کو بھی چاہئے کہ ملک میں جو بھی گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، بسیں ہیں، ان کی چیکنگ کی جائے کہ وہ جب سڑک پر آئیں تو اچھی حالت میں ہوں اور بغیر چیکنگ کے گاڑی چلانے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ گاڑی کی حالت خراب ہوتی ہے تو وہ سڑک پر دھواں چھوڑتی ہے اور اس سے فضائی آلودگی میں اضافے کے سواکچھ حاصل نہیں ہوتا۔اس سے بیماریاں جنم لیتی ہیں اور بہت سے دوسرے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔