ثاقب نثار کے بعد بھی اعلی عدلیہ فعال
کراچی ( صلاح الدین حیدر ) جن لوگوں کا خیال تھا کہ ثاقب نثار کے ریٹائر ہونے کے بعد عدالت عظمیٰ غیرفعال ہوجائے گی وہ سخت غلطی پر تھے۔ ثاقب نثار کے جانشین جسٹس آصف سعید کھوسہ، ان کے رفقائے کار، حتیٰ کہ سندھ ہائی کورٹ تک اس کردار کو ادا کرنے میں اتنی ہی جانفشانی سے مصروف عمل ہے جتنا کہ پہلے تھی۔ آج بھی اعلیٰ عدالتیں انسانی حقوق کی حفاظت، کراچی کے مسائل ،پانی کی فراہمی اور غریبوں کی داد رسی میں سب سے آگے ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ عدالتیں عالیہ ہوں یا عدالت عظمیٰ دونوں ہی مصائب زدہ ہم وطنوں کےلئے مسیحا کا کردار ادا کررہی ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔
کراچی کا مسئلہ تو ویسے ہی گھمبیر تھا لیکن ایم کیو ایم کے میئر وسیم اختر آج بھی کراچی کو صاف ستھرا رکھنے، ٹینکر مافیا اور دوسرے مسائل حل کرنے میں شب روز مصروف ہیں۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ویسے تو بہت تگ و دو کرتے نظر آتے ہیں لیکن سوائے لفظی جمع خرچ کرنے کے کچھ کرنے میں شاید دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔اس بات کا سندھ ہائی کورٹ نے سختی سے نوٹس لیا ہے۔ صوبائی سیکرٹری خزانہ کو طلب کر کے حکم دیا کہ رتھ فاو اسپتال جسے جرمن خاتون نے ناداروں اور مجبور لوگوں کےلئے قائم کیا تھا اور 50 سال تک اس کی خدمت کر کے اس جہاں فانی سے رخصت ہوئیں۔ وہ آج بھی عدم توجہی کا شکار کیوں ہیں۔ اسپتال میں فوری طورسے وہ تمام سہو لتیں مہیا کی جائیں جس کی وہاں کمی ہے۔
2رکنی ہائی کورٹ کی بنچ نے جو جسٹس نعمت اللہ پلیجو کی سربراہ میں مقدمات سن رہی ہے سندھ پبلک سروس کمیشن کو حکم دیا کہ 11 اپریل تک ایسے تمام ڈاکٹروں اور اسپتال کے عملے کی فہرست پیش کرے جن کی وہاں ضرورت ہے۔
جہاں تک کراچی کا سوال ہے تو جتنا کم کہا جائے اتنا ہی بہتر ہے، جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے بھی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو مشورہ دیا کہ مل جل کر کراچی کے بڑھتے ہوئے مسائل پر توجہ دی جائے۔ مشکل یہ ہے کہ مراد علی شاہ، سعید غنی اور سندھ حکومت کے تمام اہلکار سارے مالی اور انتظامی اخراجات خاص طور پر اپنے پاس رکھنے پر مصر ہیں۔ میئر بیچارہ ادھر ادھر سے فنڈ اکٹھا کر کے تھوڑا بہت مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سندھ حکومت یہ بھول گئی کہ لندن، نیویارک، ٹوکیو میں شہروں کے تمام امور میئر اور میونسپل ادارے کے ذریعے کئے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں ہمیشہ سے ہی الٹی گنگا بہتی رہی ہے۔ اب بھی وہی کاروبار جاری ہے۔