’’اماں جان! بے خوف و خطر اس میں کود جایئے۔ بے شک دنیا کی سزا آخرت کے عذاب کے مقابلے میں کہیں ہلکی ہے‘‘
بالوں کو بنانے سنوارنے اور کنگھی پھیرنے والی عورت کو مشا طہ کہا جاتاہے۔ فرعون نے اپنے اہل خانہ کی خدمت کیلئے ایک مشاطہ رکھی ہوئی تھی۔ آج کل کی اصطلاح میں اسے بیوٹی میکر کہا جاسکتاہے۔ فرعون کے اہل خانہ کی مشاطہ فرعون کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو اپنارب مانتی تھی۔
معراج کے موقع پر ایک جگہ رسول اللہ نے بڑی خوشگوار مہک محسوس کی۔ آپ نے جبریل ؑ سے پوچھا:
’’جبریل! یہ کیسی خوشگوار مہک ہے؟‘‘
حضرت جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ فرعون کی بیٹی کے سر میں کنگھی کرنے والی خاتون اور اس کی اولاد کی خوشبو ہے۔ رسالت مآب نے پوچھا:
’’اس خاتون کا کیا قصہ ہے؟‘‘
حضرت جبریل ؑ نے بتایا کہ ایک دن وہ فرعون کی بیٹی کے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی۔ اچانک اس کے ہاتھ سے کنگھی گر پڑی تو وہ بے ساختہ بولی:
’’بسم اللہ۔ ‘‘
فرعون کی بیٹی نے اس سے پوچھا: اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا تمہاری مراد میرے باپ کے نام سے ہے؟ اس خاتون نے جواب دیا:
’’ نہیں، بلکہ میرا اور تیرے باپ کا رب اللہ ہے۔ ‘‘
فرعون کی بیٹی نے یہ سن کر کہا: میں تمہاری یہ بات اپنے باپ (فرعون) کو بتائوں گی۔ اس خاتون نے کہا:
’’ٹھیک ہے (جائو بتادو)۔ ‘‘
چنانچہ اس نے یہ بات اپنے باپ سے کہہ دی۔
فرعون طیش میں آگیا۔ اُس نے فوراً اس خاتون کو اپنے دربار میں طلب کیا اور اس سے پوچھا: اے عورت! تیرا میرے سوا بھی کوئی رب ہے؟۔
اس خاتون نے انتہائی جرأت و شجاعت سے جواب دیا:
’’ ہاں، میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔ ‘‘
یہ جواب سن کر فرعون نے تانبے کی ایک بڑی دیگ میں تیل(یا پانی) کھولانے کا حکم دیا۔ جب یہ دیگ خوب تپ گئی تو فرعون نے حکم دیا کہ اس خاتون کو اور اس کی اولاد کو اس میں ڈال دیا جائے۔ خاتون نے فرعون سے کہا:
’’ میری تجھ سے ایک درخواست ہے۔‘‘
فرعون نے پوچھا: کیا درخواست ہے؟ خاتون نے کہا:
’’میں یہ پسند کرتی ہوں کہ تو میری اور میرے بچوں کی ہڈیاں ایک ہی کپڑے میں جمع کر کے ہمیں یکجا دفن کر دینا۔ فرعون بولا: یہ تیرا ہم پر حق ہے۔ پھر فرعون کے حکم پر اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بچوں کو ایک ایک کرکے کھولتی ہوئی دیگ میں ڈال دیا گیا۔ آخر میں اس کا ایک شیرخوار بچہ باقی رہ گیا، اس خاتون کو اس بچے سے بے حد پیار تھا۔ وہ اپنے اس بچے کی وجہ سے جھجک کر ذرا پیچھے ہٹی تو وہ شیر خوار بچہ بول اٹھا:
’’اماں جان! بے خوف و خطر اس میں کود جایئے۔ بے شک دنیا کی سزا آخرت کے عذاب کے مقابلے میں کہیں ہلکی ہے۔‘‘
چنانچہ وہ خاتون اس کھولتی دیگ میں بے خطر کود پڑی۔