اشتعال انگیزی کابیانیہ دہشتگردی ہے، امام حرم
مکہ مکرمہ ۔۔۔ مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر ماہر المعیقلی نے کہا ہے کہ اسلام تشدد، رنگ ، نسل ، قومیت یا ملت کی بنیاد پر اشتعال انگیزی کا مخالف ہے۔ یہ ساری شکلیں انتہا پسندی اور دہشتگردی کی ہیں۔ تمام آسمانی مذاہب اور صالح عقل کے مالک لوگ ہر طرح کی دہشتگردی اور انتہا پسندی کو مسترد کرتے ہیں۔ تشدد اور اشتعال انگیزی کے بیانیوں سے معاشرے میں انارکی پھیلتی ہے۔ انارکی کے باعث حرمتیں پامال ہوتی ہیں۔ امن اور سلامتی سے محبت، مودت اور لوگوں کے درمیان تعاون برپا ہوتا ہے۔ امن و امان کے ماحول میں تعمیر و ترقی کے کام انجام دیئے جاتے ہیں۔ ہر قوم اپنے وطن کی ترقی اور خوشحالی کےلئے کوشاں رہتی ہے لہذا دنیا بھر کے معاشروں کے حالات امن و امان کے بغیر بہتر نہیں ہوسکتے۔ وہ ایمان افروز روحانی ماحول میں جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے۔ امام حرم نے بتایا کہ ”السلام“ ہمارے بابا آدم علیہ السلام اور انکے بعد آنے والے نبیوں کا سلام ہے۔ فرشتے بھی جنت میں اہل ایمان کا خیر مقدم ”السلام“ ہی سے کریں گے۔ اہل جنت اپنے رب سے ملاقات کے موقع پر السلام ہی سے اللہ کو مخاطب کریں گے۔ امام حرم نے بتایا کہ ”السلام“ بہت سارے پیارے معنوں پر مشتمل ہے۔ یہ بندگان خدا کے درمیان پاکیزہ مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ السلام کی بدولت لوگ ایک دوسرے کے دلوں میں جگہ بنا پاتے ہیں۔ السلام اہل ایمان کو صف بستہ کرتا ہے اسی لئے اسے ایمان کی علامت اور اہل اسلام کے درمیان ملاقا ت کے موقع پر خیر مقدمی کلمہ قرار دیا گیا ہے۔ امام حرم نے احادیث مبارکہ سے استدلال کرتے ہوئے ”السلام“کی اہمیت اجاگر کی۔ امام حرم نے یہ بھی کہاکہ ”السلام“ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم الانبیاءو المرسلین ہیں، السلام کے علمبردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز سے فارغ ہوتے اہل ایمان کو اس امر کی یاد دہانی کراتے کہ السلام اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ امام حرم نے توجہ دلائی کہ جو شخص بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم امن و سلامتی کے علمبردار تھے۔ منصب نبوت پر سرفرار ہونے سے قبل اور اسکے بعد بھی وہ امن پسند رہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلیٰ اخلاق ، لوگوں کے درمیان مصالحت، عدل و انصاف کے قیام اور مظلوم کی نصرت کرکے اپنے معاشرے میں امن و امان برپا کرنے کی کوشش اپنی حیات طیبہ کے ابتدائی ایام میں ہی شروع کردی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم حلف الفضول میں شریک ہوئے۔ اس کا تذکرہ احادیث مبارکہ اور سیرت طیبہ میں جگہ جگہ ملتا ہے۔ حلف الفضول منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے اہل مکہ نے کیا تھا۔ اس موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک ہوئے تھے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی بننے کے بعد ایک موقع پر اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ میں عبداللہ بن جدعان کے گھر پر ایک ایسے معاہدے میں شریک ہوا تھا ۔ مجھے وہ سرخ اونٹوں سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔ اگر عہد اسلام میں بھی مجھے اس قسم کے معاہدے کی دعوت دی گئی تو میں اسے قبول کرلونگا۔ امام حرم نے بتایا کہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی سب لوگوں کے سامنے کھلی کتاب کی طرح روشن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کبھی جنگ کا علم بلند کیا اور نہ ہی کبھی لڑائی جھگڑے کی دعوت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رحم دلی ، عفو و درگزر اور رواداری کی دعوت دیتے رہے۔ امام حر م نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امن پسند اور انسانیت نوازی کے حوالے سے متعدد واقعات کا بھی تدکرہ خطبہ جمعہ دیتے ہوئے کیا۔ امام حرم نے بتایا کہ اسلام رحمدلی، نرمی ، روا داری اور سلامتی کا مذہب ہے۔ یہ لوگوں کو جوڑنے والا مذہب ہے اسی لئے اسلام نے 5امو رکو ضروری قرار دیا ہے او رانکی حفاظت و نگہداشت کا حکم دیا ہے۔ اسلام اپنے پیرو کاروںکو دین ، جان ، عقل ، دولت اور نفس کی حفاظت کا حکم دیتا ہے لہذا کوئی بھی شخص کسی پر ناحق حملہ کرنے کا مجاز نہیں۔ کوئی بھی شخص کسی کی آبرو ، کسی کی دولت میں ناحق تصرف کا حق نہیں رکھتا۔ دوسری جانب مدینہ منورہ میں مسجد نبوی شریف کے امام و خطیب شیخ عبداللہ البعیجان نے جمعہ کا خطبہ امن و امام کے موضوع پر دیا۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان انسانی زندگی کی بقا ءکیلئے اشد ضروری ہے۔ امن و امام کی بدولت معاشروں میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ دنیا کا ہر معاشرہ امن و امان کیلئے کوشاں رہتا ہے۔ امام مسجد نبوی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نواز رہا ہے۔ اس نے ہمیں امن و امان، خوشحالی ، استحکام اور بے شمار نعمتوں سے نہال کررکھا ہے۔ وہ ہمیں آلام و مصائب اور فتنوں کے بھنور سے نجات دیئے ہوئے ہے۔ امام حرم نے کہا کہ انارکی سے صرف اور صرف فتنے ، مصیبتیں، آزمائشیں اور بلائیں ہی جنم لیتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ نمازیوں کی خونریزی، امن پسندو ںکو سراسیمہ کرنا ، اللہ کے گھروں کے تقدس کو پامال کرنا، دہشتگردی اور غداری کا مظاہرہ کرنا بہت بڑی مصیبت ہے۔ یہ تمام مسلمانوں کیلئے بڑی آزمائش ہے۔ ہمیں اس پر اللہ تعالیٰ سے اچھے اجر کی توقع رکھنی چاہئے۔