سعودی ملازم خواتین ... غیر ملکی کارکنان کی حریف
ڈاکٹر عبداللہ صادق دحلان ۔ عکاظ
حالیہ3 برسوں کے دوران سعود ی لیبر مارکیٹ پر نظر رکھنے والے یہ بات نوٹ کئے بغیر نہ رہ سکے کہ سعودی لیبر مارکیٹ کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل ہورہا ہے۔ خواتین کثیر تعدادمیں لیبر مارکیٹ میں شامل ہوئی ہیں۔یہ ایک طرح سے غیر ملکی عملے کی حریف بلکہ متبادل کے طورپرلیبر مارکیٹ کا حصہ بن رہی ہیں۔ غیر ملکی کثیر تعداد میں ریٹیل کے کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ ریٹیل کا کوئی شبہ ایسا نہیں جس میں غیر ملکی خاصی تعدا د میں موجود نہ ہوں۔ خواتین خدمات کے شعبے میں بھی سعودی اور غیر ملکی مرد ملازمین کی طاقتور حریف کے طور پر ابھر کر سامنے آرہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ متعدد شعبوں پر مردوں ہی کی حکمرانی چلی آرہی تھی۔ ان میں سعودی اور غیر ملکی دونوں شامل تھے۔ اب سعودی خواتین نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ریٹیل اور خدمات کے شعبوں میں غیر ملکی کارکنان کی جگہ وہ بآسانی لے سکتی ہیں۔ اسکا سہرا سب سے پہلے تو سعودی حکومت کی اُن پالیسیوں اور نئے اقدامات کے سر جاتا ہے جن کے بموجب خواتین کو متعدد بلکہ بیشتر اسامیوں پر کام کرنے کی اجازت حاصل ہوئی ہے۔ سعودی قیادت کا مثبت رجحان ملازم خواتین کی تعداد بڑھانے کا باعث بنا۔ 2018ءکی آخری سہ ماہی کے اختتام تک سعودی کارکن خواتین کی تعداد 6لاکھ تک پہنچ گئی۔ وزارت محنت و سماجی بہبود اور اس کے ماتحت اداروں مثال کے طور پر فروغ افرادی قوت فنڈ (ہدف)، سوشل انشورنس جنرل کارپوریشن، سماجی فروغ بینک، سعودائزیشن کی ایجنسیوں کی اسکیموں اور پروگراموں کے مثبت نتائج برآمد ہونے لگے ہیں۔اس سلسلے میں نجی اور سرکاری اداروں کے تعاون نے بھی سعودی خواتین کو مختلف شعبوں میں اپنی تعداد بڑھانے کے امکانات پیدا کئے۔
یہاں میں وزارت محنت کے ماتحت سماجی فروغ اور سعودائزیشن کے ادارے کو سلام تعظیم پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس نے صحت، مواصلات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، صنعت ، کنسلٹنسی، تجارت، سیاحت، ریٹیل، ٹرانسپورٹ ، ٹھیکیداری، وکالت اور اکاﺅنٹنٹ کے شعبوں کی سعودائزیشن کیلئے 18سرکاری و نجی اداروں کے ساتھ معاہدے ، اسٹراٹیجک شراکت اورتعاون کی مفاہمتی یادداشتیں طے کیں۔ اسکی بدولت ہزاروں سعودی خواتین روزگار سے منسلک ہوسکیں۔
سچی بات یہ ہے کہ خواتین طویل عرصے تک پیداواری عمل سے دور رہیں۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ اگر مرد حضرات نے اپنے آپ کو ریٹیل اور خدمات کے شعبوں میں نہ منوایا تو مرد حضرات مملکت میں بے روزگاری کی بھول بھلیوں کے حوالے ہوجائیں گے۔ خواتین آنے والے ایام میں کلیدی عہدوں پر بھی مرد حضرات سے ٹکر لیں گی۔ وزارت محنت ایک ہزار سعودی خواتین کو نجی اداروں میں کلیدی عہدے دلانے کے خصوصی پروگراموں پر کام کررہی ہے۔
وزارت محنت نے "وصول" کے نام سے ایک پروگرام جاری کیا ہے۔ اس کی بدولت سعودی خواتین کو ملازمتوں تک رسائی حاصل ہوگی۔ اسی طرح سے ایک اور پروگرام"قرة" کا آغاز کیا ہے۔ یہ بچوں کی نگہداشت کرنے والی خواتین کیلئے ہے۔ تیسرا پروگرام"تمہید" نافذ کیا ہے جس کے تحت برسر روزگار خواتین کو مختلف مہارتیں حاصل کرنے کیلئے تربیت دی جائیگی۔
سعودی خواتین کو روزگار دلانے ، سعود ی تاجر خواتین کے ہاتھ مضبوط کرنے اور سعودی خواتین کو ملازمت کا اہل بنانے والی پالیسی کی 100فیصد حمایت ہمارا فرض ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ خواتین سے متعلق سعودی عرب کی پالیسی بین الاقوامی قوانین محنت سے ہم آہنگ ہے۔ یہاں محنتانے ، امتیازات اور صنف کے حوالے سے کوئی تفریق نہیں۔ خواتین کے روزگار کے مدد گار پروگرام دنیا کے متعدد ممالک سے زیادہ بہتر ہیں۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ سعودی قانون محنت اسلامی شریعت سے بھی ہم آہنگ ہے اور بین الاقوامی قوانین محنت سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔
سعودی معاشرے کا وجہ امتیاز یہ ہے کہ یہاں سعودی خواتین کو لیبر مارکیٹ میں خوش آمدید کہا جارہا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ سعودی مرد خواتین کے ساتھ انتہائی تہذیب و شائستگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔کسی طرح کے منفی اثرات مرتب نہیں ہورہے ۔ چھیڑ چھاڑ وغیرہ کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سعودی نوجوانوں نے ثابت کردیا کہ وہ کارکن خواتین کو اپنی بہن ہی سمجھتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭