امریکہ طالبان مذاکرات میں 5 طالبان رہنما گوانتا نامو جیل کے سابق قیدی
افغانستان میں سترہ برس سے جاری جنگ کے خاتمے کے لئے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور اس حوالے سے بات چیت کے کئی ادوار ہوچکے ہیں جن میں کسی حد تک پیش رفت بھی سامنے آئی ہے۔
دونوں فریقین کے درمیان ہونے والی بات چیت میں دلچسپ بات یہ سامنے آئی ہے کہ طالبان کی جانب سے مقرر کئے گئے مذاکرات کاروں کی نمائندگی کرنے والے پانچ طالبان رہنما ایسے ہیں جو گوانتا ناموبے میں امریکی قیدی رہ چکے ہیں۔
مذاکرات کرنے والے ان پانچ طالبان میں ملا خیر اللہ خیرخواہ، عبدالحق واثق، ملا فضل مظلوم،ملا نور اللہ نوری اور محمد نبی عمری شامل ہیں۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق امریکی قیدی رہنے والے طالبان ملا خیر اللہ خیرخواہ کا کہنا ہے کہ ’گونتا ناموبے جیل میں قید کے دوران ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ ہمیں یہاں لاکر نا انصافی کی گئی ہے اور ہم یہاں سے آزاد ہو جائیں گے۔لیکن میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا ایک روز ہم ایک ہی میز پر آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت کر رہے ہوں گے۔‘
یہ سینئر طالبان رہنما13 برس تک گوانتا ناموبے میں قید رہے اور خوش قسمتی سے ان کی رہائی اس وقت عمل میں آئی جب ان کو طالبان کی طرف سے اغوا کئے جانے والے امریکہ کے واحد جنگی قیدی سارجنٹ بوی برگدال کی رہائی کے بدلے میں آزاد کر دیا گیا۔
حالیہ مہینوں میں جب طالبان اور امریکہ کے درمیان جنگ کو ختم کرنے کے لئے مذاکرات شروع ہوئے تو طالبان رہنماؤں نے یہ بات کی کہ سابق قیدیوں کو ان مذاکرات میں شامل کیا جائے۔جب بھی قطر کے دارلحکومت دوحہ میں مذاکرات ہوتے ہیں تو یہ پانچ آدمی امریکی سفارت کاروں اور فوجی جرنیلوں کے عین سامنے بیٹھے ہوتے ہیں۔
حالیہ نشستوں میں ہونے والی سست رواور بعض اوقات مایوس کن بات چیت کے دوران یہ طالبان ہی تھے جو اکثر اوقات جذباتی ہوجاتے تھے۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو جذبات سے بھری ہوئی تقاریر کرتے ہوئے بتاتے تھے کہ چھ ماہ کے اندرامریکی فوج کی افغانستان سے مکمل واپسی کتنی ضروری ہے۔
امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کی جانب سے عام طور پر ردعمل تکنیکی اعتبار سے وضاحتیں پیش کرنا ہوتا تھا کہ امریکہ کا افغانستان سے انخلا ایک پیچیدہ معاملہ ہے جسے اسے آہستہ ہونا چاہیے اور شاید یہ سالوں پر محیط ہو۔
امریکی اخبار کے مطابق ملا خیراللہ کے علاوہ مذاکرات میں شامل دیگر سابق قیدی بہت کم بولتے تھے۔وہ جب کبھی بات کرتے بھی تھے تو مذاکرات میں شامل دیگرطالبان کے مقابلے میں کم سخت گیر لہجے میں گفتگو کرتے تھے، شاید برسوں پر محیط جنگ کی سختیوں نے انہیں نرم خو بنا دیا تھا ۔گزشتہ چند برسوں سے یہ طالبان اپنے خاندانوں کے ساتھ دوحہ میں رہائش پذیر ہیں، لیکن امریکہ کے ایما پر وہ قطر کی حکومت کی نگرانی میں رہ رہے ہیں۔
گونتا نامو کے ان قیدیوں کے طالبان دور حکومت میں مختلف رول تھے ۔ملا خیر خواہ گورنر اور نگران وزیر داخلہ کے عہدے پر رہے۔عبدالحق واثق انٹیلی جنس کے ڈپٹی منسٹر تھے۔غالباً ان میں سب سے بدنام طالبان آرمی کے چیف ملا فضل مظلوم تھے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے بڑے پیمانے پر قتل و غارت کی۔
رواں برس جنوری میں جب مذاکرات کا باقاعدہ آغازہوا تو ان طالبان رہنماوں کا تعارف ہوا تو انہوں نے اپنی شناخت گوانتا ناموبے کے سابق قیدیوں کے طور پر کروائی۔
بات چیت کے بعد نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے ملا خیر اللہ نے کہا ’اس اہم موقعے پر میرے ذہن میں یہ مسئلہ نہیں ہے کہ میں امریکی قیدی رہا ہوں۔ میرے لئے یہ اہم نہیں ہے کہ میرے سامنے کون بیٹھا ہے اور انہوں نے میرے ساتھ کیا سلوک روا رکھا تھا۔ میرے لئے اہم یہ ہے کہ ہم کیا بات کر رہے ہیں اوراس میں ہمارے ملک کے مفاد میں کیا جاتا ہے۔‘
مذاکرات کی کچھ نشستوں میں افغانستان میں تعینات امریکہ اور اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل آسٹن ایس ملر بھی شامل تھے۔ بات چیت میں شامل کئی افراد کے مطابق جنرل ملر نے کہا وہ طالبان کو جنگجو سمجھتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ دہشت گرد تنظیم اسلامک سٹیٹ کو شکست دینے کے لئے امریکہ کو طالبان کے ساتھ مل کر کام کر نا ہوگا۔
ملا خیراللہ نے کہا کہ اگرچہ دونوں فریق ابھی تک کسی حتمی معاہدے پر نہیں پہنچے ہیں، لیکن ایک بات واضح ہے کہ جنگ کو ختم کرنا دونوں کے مفاد میں ہے۔