حکومت ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی حامی کیوں؟
وسیم عباسی
پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف ماضی میں حکومتوں کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی ا سکیم یا ٹیکس چوری کی معافی کی اسکیم کی شدید مخالف رہی ہے لیکن اب اس نے خود ایمنسٹی سکیم لانے کا اعلان کیا ہے۔
منگل کو اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمرنے کہا تھا کہ کاروباری برادری کے مطالبے پر ملکی اور غیر ملکی اثاثوں کو ظاہر کرنے کےلئے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لائی جائے گی جس کے خدو خال تیارکئے جا رہے ہیں۔ سیاستدانوں اور سول سرونٹس کو بھی ایمنسٹی سے فائدہ اٹھانے کی تجویز ہے۔
عمران خان نے گذشتہ ٹیکس ایمنسٹی پر کیا کہا تھا؟
یاد رہے کہ اس سے قبل جب مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اسی طرح کی ا سکیم لانچ کی تھی تواس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔
عمران خان نے ا سکیم کو مسترد کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں کہا تھا : ’جب بار بار ڈاکووں کوایمنسٹی ا سکیم دیتے ہیں تو ایمانداری سے ٹیکس دینے والوں کو پیغام جاتا ہے کہ ان سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں۔ پہلے چوری کرو، ٹیکس نہ دو کرپش کرو تھوڑی دیر بعد ا سکیم آ جائے گی سارا آپ کا کالا دھن سفید ہو جائے گا۔‘
تاہم اب جبکہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت خود ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لا رہی ہے تو آج کی اپوزیشن ان پر تنقید کر رہی ہے تو دوسری جانب معاشی ماہرین اس ا سکیم کی کامیابی کے حوالے سے متضاد رائے رکھتے ہیں۔
کیا ا سکیم ضروری ہے؟
سابق سیکرٹری خزانہ اور معاشی امور کے ماہر وقار مسعود نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ ٹیکس ایمنسٹی سکیمز کے سخت مخالف رہے ہیں تاہم پی ٹی آئی حکومت کی طرف بے نامی اثاثے رکھنے والوں کے خلاف حالیہ کارروائی کے بعد یہ ضروری ہو گیا تھا کہ اس طرح کی ا سکیم لائی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے بے نامی قانون نافذ کر کے بڑا اقدام اٹھایا ہے۔ اب لوگ اپنے ڈرائیور، باورچی اور رشتہ داروں کے نام پر اکاونٹس یا جائیداد نہیں رکھ سکتے کیوں کہ پکڑے جانے کی صورت میں سب ضبط ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں جب کہ پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے اور بزنس طبقہ خوف و ہراس کا شکار ہے حکومت کی طرف سے یہ ا سکیم لانچ کر کے ایک موقع دیا گیا ہے کہ وہ باضابطہ معیشت میں شامل ہو جائیں۔
سابق سیکرٹری خرانہ کا کہنا تھا کہ گذشتہ نو ماہ میں خوف وہراس کی وجہ سے 318 ارب روپے کے ٹیکس کا نقصان ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی معیشت کا 30 سے 40 فیصد سرمایہ بے ضابطہ سیکٹر میں ہے اور اسے باضابطہ بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
’آخری موقع کے بعد کوئی اور موقع نہ دیں‘
وقار مسعود کے مطابق لوگوں کو حکومت کے اعلان پر اعتماد کا نہ ہونا اس طرح کی ا سکیمز کی ماضی میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ رہی ہے۔
سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف نے بھی 2000 میں اس طرح کی ایک ا سکیم متعارف کروائی تھی مگر وہ کامیاب نہیں ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو خوب مشتہر کرنا چاہیے کہ یہ اس طرح کا آخری موقع ہے تاکہ جو لوگ اس امید پر اثاثے ظاہر نہیں کرتے کہ کچھ دیر بعد پھر اس طرح کی ا سکیم آ جائے گی وہ بھی جان جائیں کہ بعد میں ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔ حکومت واضح کر دے کہ جب تک پی ٹی آئی کی حکومت ہے اس طرح کی اور کوئی اسکیم نہیں آئے گی۔
’ملک کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا‘
معاشی امور کے سینئیر تجزیہ کار خرم حسین سکیم کی کامیابی کے لیے زیادہ پر امید نہیں۔ ان کہنا تھا کہ انہوں نے گذشتہ دس سالوں میں دس ایسی ایمنسٹی دیکھی ہیں جو سب کی سب ناکام ہوئیں۔
’میرے خیال میں ایسی سکیموں کا چند لوگوں کو فائدہ ضرور ہو جاتا ہے مگر ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔اس اسکیم سے بھی ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘
خرم حسین کا کہنا تھا کہ ماضی میں لوگوں کی شرکت کے حوالے سے سب سے بڑی سکیم شاہد خاقان عباسی کے دور میں متعارف کروائی گئی مگر اس سے ملک کو کیا فائدہ ہوا؟ کتنے پیسے خزانے میں آئے؟ کتنے غیر ملکی اثاثے ملک میں لائے گئے؟
خرم حسین کے مطابق ہر ایمنسٹی ا سکیم یہ کہہ کر لائی جاتی ہے کہ یہ پچھلی ساری اسکیموں سے مختلف ہے مگر کچھ مختلف نہیں ہوتا۔
ان کے مطابق اس طرح کا کوئی بھی ایک نسخہ پراثر نہیں ہوتا بلکہ حکومت کو بڑے پیمانے پر ٹیکس اصلاحات لانی پڑیں گی جن کے تحت ٹیکس جمع کروانے والوں کو فوائد ملیں اور نہ جمع کرانے والوں کو جرمانے ہونگے۔