کراچی سے دو صحافیوں کا مبینہ اغوا، صحافتی تنظیموں کا احتجاج
گذشتہ ایک ہفتے کے دوران کراچی میں دو صحافیوں کے مبینہ اغوا کے حوالے سے صحافیوں میں تشویش دیکھی جا رہی ہے اور نمائندہ تنظیموں کی جانب سے ان کی مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔
روزنامہ جنگ کراچی کے رپورٹر اور کراچی پریس کلب کے رکن سید مطلوب حسین اور ابتک ٹی وی کے کیمرہ مین علی مبشر نقوی کی گمشدگی کو کچھ دن گزر گئے ہیں لیکن پولیس ان کے اغوا کا مقدمہ درج نہیں کر رہی اور نہ ہی کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے نے ان کی گرفتاری ظاہر کی ہے۔
صحافتی تنظیموں کے عہدیداران کے مطابق سادہ لباس اہلکار مطلوب حسین کو ان کے گھر سے اٹھا کے لے گئے، جبکہ مبشر نقوی منگل کی رات اس وقت اغواء کیا جب وہ دفتر سے گھر واپس جا رہے تھے۔
دونوں صحافیوں کے اغواء کے حوالے سے متعلقہ تھانوں کو آگاہ کردیا ہے، تاہم تا حال ان کی گمشدگی کے مقدمات درج نہیں کیے گئے۔
اس حوالے سے کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران نے قومی سلامتی کے اداروں اور عدلیہ سے گزارش کی کہ ’ہم پاکستانی ہیں اگر کوئی صحافی کسی سرگرمی میں ملوث ہے تو ہمارے ذمہ داران سے رابطہ کیا جائے جس طرح مطلوب حسین کو اغوا کیا گیا ہے اس سے معاشرے میں خوف و ہراس پیدا ہوا ہے یہ بھی دہشت گردی ہے۔‘
کراچی پریس کلب کے سیکریٹری ارمان صابر نے کہا کہ چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا گیااس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ دونوں صحافی اگر کسی جرم میں ملوث ہیں انہیں تو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔
ارمان صابر نے مطالبہ کیا کہ مطلوب اور علی مبشر کو جلد از جلد رہا کیا جائے، اور عندیہ دیا کہ اگر دونوں صحافیوں کو رہا نہ کیا گیا تو ذمہ داروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔
کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور کے صدر طارق ابوالحسن نے کہا کہ ’مطلوب کے مبینہ اغوا کاروں کی جانب سے ضعیف والدین اور اہلخانہ پر بندوقیں تان کر ہراساں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم صحافی بر سرزمین کام کرتیہیں ہمارا کوئی کام چھپا ہوا نہیں ہے، ہم ملک دشمن نہیں ہیں، ہمارے ساتھ ایسا رویہ نہ روا رکھا جائے انصاف سب کے لیے میسر ہونا چاہیے سچ کو دبانے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔‘
ایم کیوایم کے سابق رکن قومی اسمبلی سلمان مجاہد نے کہا کہ اگر مطلوب پر کسی جرم کا الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے انہوں نے وزیر اعظم اور چیف جسٹس سے درخواست کی کہ مطلوب کو بازیاب کرایا جائے۔
پاکستان سرزمین پارٹی کی رہنما آسیہ اسحاق نے کہا کہ پی ایس پی گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ سے مطالبہ کرتی ہے کہ گمشدگی کی تحقیقات کرائی جائیں اور مطلوب کی بازیابی کو یقینی بنایا جائے۔
کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور کے سیکریٹری حامد الرحمان نے کہا کہ یہ پہلا مظاہرہ نہیں ہے تواتر کے ساتھ مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ آمرانہ دور میں بھی صحافیوں پر صعوبتیں آئیں لیکن ہماری جدوجہد رکی نہیں بلکہ آگے بڑھی۔ صحافی کل بھی متحد تھے اور آج بھی متحد ہیں ہم مطلوب کی بازیابی تک احتجاج جاری رکھیں گے۔اٹھا کر غائب کر دینا کسی طرح قابل قبول نہیں اگر الزام ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے۔
صحافی مزدور ایکشن کمیٹی کے رہنماء فہیم صدیقی نے کہا کہ ہمیں پابند سلاسل کرکے ڈرایا دھمکایا نہیں جا سکتا، ہم ڈرنے والے نہیں ہیں، ہم پرامن لوگ ہیں، کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسا نہیں کیا جاتا کہ رات کی تاریکی میں گھر میں داخل ہو کر غائب کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مطلوب حسین کسی جرم میں ملوث ہے تو اسے قانون کے مطابق عدالت میں پیش کیا۔جائےانہوں نے گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ سے مطالبہ کیا کہ مطلوب حسین کو فی الفور بازیاب کرایا جائے۔اگر مطلو ب کو پیش نہ کیا گیا تو پھر گورنر ہاو?س اور وزیر اعلیٰ ہاو?س کے باہر احتجاج کیا جائے گا۔
کراچی پریس کلب کے سابق سیکریٹری عامر لطیف نے کہا کہ مطلوب حسین سے قبل صحافی نصراللہ چوہدری کو بھی نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے تھے لیکن انہیں جھکنا پڑا تھا اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ آئندہ کسی بھی صحافی کو گمشدہ نہیں کیا جائے گا اور اگر کوئی صحافی کسی غلط سرگرمی میں ملوث پایا گیا تو ہماری باڈیز سے رابطہ کیا جائے گالیکن اس وعدے کی پاسداری نہیں کی گئی۔