سری لنکن پولیس نے غلطی سے امریکی خاتون کو حملہ آور بنادیا
امریکی ریاست میری لینڈ میں رہنے والی عمارہ مجید کے لیے جمعرات کی صبح ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھی جب انہوں نے انٹرنیٹ پر ہر طرف اپنی تصویر دیکھی جس میں سری لنکن پولیس نے ان کو اتوار کو گرجا گھروں پر حملہ کرنے والے چھ شدت پسندوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
عمارہ مجید نے فوری طور پر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کا سہارا لیا اور ٹویٹ کیا کہ ’مجھے آج صبح سری لنکن پولیس نے جھوٹ بولتے ہوئے داعش کے ان دہشت گردوں میں سے ایک قرار دیا ہے جنہوں نے ایسٹر کے موقع پر حملے کیے۔ کیا ہی چیز ہے جاگنے پر دیکھنے کے لیے۔‘
اس سے قبل جمعرات کو سری لنکن پولیس کی جانب سے اتوار کے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث مشتبہ افراد کی تصاویر جاری کرتے ہوئے عوام سے ان کی شناخت میں مدد کی اپیل کی گئی تھی۔
سری لنکن پولیس کی جاری کردہ مشتبہ افراد کی فہرست میں عمارہ مجید کی تصویر پانچویں نمبر پر لگا کر ان کی شناخت ’عبدالکاردر فاطمہ کادیا‘ کے نام سے کی گئی تھی۔
دیگر ناموں کے تصاویر میں محمد لوہیم صادق عبدالحق، فاطمہ لطیفہ، محمد لوہیم شہید عبدالحق، پولستھینی راجندرن اور محمد قاسم کی شناخت کے لیے کہا گیا ہے۔
عمارہ مجید نے بعد ازاں اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک اور ٹویٹ میں سری لنکن پولیس کی جانب سے ان سے معافی مانگنے کی تصویر بھی منسلک کی ہے۔
عمارہ مجید کون ہیں؟
عمارہ مجید امریکی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی متحرک کارکن ہیں جو امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں رہتی ہیں، ان کے والدین نے سری لنکا سے امریکہ نقل مکانی کی تھی۔
عمارہ مجید کوسنہ 2015میں برطانوی نشریاتی ادارے نے21ویں صدی میں اہم کردار ادا کرنے والی خواتین سے متعلق ڈاکیومنٹری میں شامل کیاتھا۔
عمارہ مجید مسلم دنیا کی خواتین کو سوشل تجربات کے ذریعے مباحثے کی طرف راغب کرنے والے ’حجاب پراجیکٹ‘ کی بانی ہیں اور ’دی فارنرز‘ نامی کتاب کی مصنفہ بھی ہیں جس میں مسلمانوں کے بارے میں پائے جانے ولاے دقیانوسی خیالات کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
عمارہ مجید کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹمپ کو لکھے جانے والے خط کے بعد دنیا کے کئی بڑے میڈیا اداروں میں پذیرائی ملی تھی۔ دسمبر 2016میں لکھے جانے والے خط میں انہوں نے مسلمانوں سے روا رکھے جانے والے سلوک پر امریکی صدرکو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
پولیس ہیڈکوارٹر کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر اور ناموں کے ساتھ عوام کو رابطہ نمبر بھی دیے گئے ہیں جن پر وہ ان افراد کے بارے میں معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔
پولیس کے مطابق اتوار کو ہونے والے حملوں کے شبے میں اب تک تحقیقات کے دوران 76 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
اس سے قبل پولیس نے حراست میں لیے گئے ایک مشتبہ شخص سے چھ پاسپورٹ، پارلیمان ہاؤس کے دو نقشے، ہتھیاروں کی تصاویر، ایک ٹیب کمپیوٹر، دو سم کارڈ اور دو موبائل فون برآمد کیے تھے۔
پولیس کے ترجمان نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ صرف سرکاری خبروں پر یقین کریں اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی افواہوں پر کان نہ دھریں۔
ادھر سری لنکا کے وزیر صحت کے مطابق گذشتہ اتوار کو ہونے والے حملوں میں 359 نہیں بلکہ تقریبا 253 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
وزارت صحت نے اسے اعدادوشمار کی ایک غلطی بتایا ہے۔
دریں اثنا سری لنکا کے صدر میتھری پالا سریسینا نے کہا ہے کہ ملک کے پولیس سربراہ نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعہ کو صدر سریسینا نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس سربراہ پوجیتھ جایاسندرامستعفی ہوگئے ہیں اور ان وہ نئے پولیس سربراہ کو نامزد کریں گے ۔
سری لنکا میں حملوں کے بعد سکیورٹی انتہائی سخت ہے اور کولمبو کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں میں چھاپوں اور تلاشیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
جمعرات کو پولیس نے کولمبو کے بین الاقوامی ہوائی اڈے بندرانائیکے انٹر نینشل ایئرپورٹ کو جانے والی شاہراہ بھی عارضی طور پر بند کر دی گئی تھی۔