پاکستان کی افواج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ ملک کے تمام مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت کر کے قومی دھارے میں لایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم دہشت گردی کے مقابلے سے فارغ ہو رہے ہیں اور اب ہمیں پرتشدد انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہے۔‘
پیر کو راولپنڈی میں میڈیا کو نیوز بریفنگ دیتے ہوئے افواج پاکستان کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت مدراس کی تعداد 30 ہزار سے زائد ہے جن میں 25 لاکھ طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں جنھیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا۔
میجر جنرل آصف غفور ںے کہا کہ سنہ 1947 میں مدارس کی تعداد 247 تھی جو سنہ 1980 میں 2061 اور اب 30 ہزار سے زائد ہو گئی ہے۔
انہوں ںے کہا ’افغانستان کی جنگ اور ایران میں انقلاب کے بعد پراکسیز چلنا شروع ہوئیں، پاکستان میں مدراس کھول کر جہاد شروع کیا گیا، اس وقت سب ساتھ تھے۔‘
افواج پاکستان کے ترجمان نے کہا ’پاکستان میں موجود 30 ہزار مدارس میں سے صرف 100 مدارس انتہا پسندی اور تشدد کی تعلیم دیتے ہیں، 30 ہزارمدارس دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی تعلیم نہیں دیتے۔‘
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں جو دنیا میں دوسری بڑی تعداد ہے، دنیا میں تعلیم کی ترقی کے انڈیکس میں ہمارا نمبر 129 میں سے 113 ہے جو بہت شرمناک بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ مدارس کئی سال تک وزارت صنعت کی زیر نگرانی رہے ہیں اور اب انہیں وزارت تعلیم کے ماتحت کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے مدارس کو قومی دھارے میں لانے کے لیے وزارت تعلیم اور وزارت داخلہ کے ساتھ مل کر ایک کمیٹی بھی قائم کی ہے۔
افواج پاکستان کے ترجمان نے کہا کہ مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام کے ساتھ مل کر ایسا نصاب مرتب کیا جائے گا جس میں نفرت انگیز مواد نہیں ہو گا بلکہ ایک دوسرے کے فرقے کا احترام یقینی بنایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ مدارس کو قومی دھارے میں لانے کے سلسلے میں آرمی چیف نے وزیراعظم کے علاوہ ہر مکتبہ فکر کے علمائے کرام کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں، آرمی چیف کا کہنا ہے کہ ’اپنا فقہ چھوڑو نہیں اور دوسرے کا فقہ چھیڑو نہیں۔‘
افواج پاکستان کے ترجمان نے کہا کہ تمام علما مدارس کو قومی دھارے میں لانے اور وہاں عصر حاضر کی تعلیم دینے پر متفق ہو گئے ہیں۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ وزارت تعلیم مدارس کے نصاب میں عصر حاضر کی تعلیم شامل کرے گی اور انہیں تعلیمی بورڈز اور اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے ساتھ منسلک کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ مدارس کو قومی دھارے میں لانے کے لئے سب سے پہلے قانون سازی ضروری ہے، اس مقصد کے لئے ڈیڑھ ماہ میں ایک بل تیار ہو جائے گا۔ دوسرے مرحلے میں مدارس کے مالیاتی امور، نصاب کا جائزہ اور اساتذہ کا تقرر کیا جائے گا۔ تیسرے مرحلے میں مدارس کو مجموعی طور پر قومی دھارے میں لایا جائے گا۔
افواج پاکستان کے ترجمان نے کہا کہ 70 فیصد مدارس میں ایک طالب علم پر ایک ہزار روپے ماہانہ خرچ کیے جاتے ہیں، 25 فیصد مدارس ایک طالب علم پر تین سے پانچ ہزار روپے جبکہ پانچ فیصد مدارس میں ایک طالب علم پر ماہانہ 15 سے 20 ہزار روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستانی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ میں امریکی اور دیگرغیر ملکی طلبہ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مدرسے کے ایک طالب علم نے پاک فوج میں کمیشن بھی حاصل کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مدراس سے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے ملازمتوں کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں۔ یہ طلبہ بھی ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء،جج، صحافی اور فوجی بن سکتے ہیں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ان طلبہ کو درس نظامی کے ساتھ عصر حاضر کی تعلیم دی جائے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ابتدائی طور پر دو ارب روپے اور اس کے بعد ہر سال ایک ارب روپے درکار ہوں گے۔ انہوں نے کہ کہا کہ اس مقصد کے لیے ریاست پاکستان یہ رقم فراہم کرے گی۔
خیال رہے کہ پاکستان میں سنہ 2014 میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت مدارس کو قومی دھارے میں لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں وزارت داخلہ نے مدارس کی تمام تنظیموں سے مذاکرات شروع کئے تھے۔
حال ہی میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی سفارشات کے تحت پاکستان نے مدارس میں اصلاحات کے عمل کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حکومت نے کالعدم تنظیموں کے خلاف مہم کے تحت 182 مدارس کو قومی تحویل میں لیا جبکہ 100 سے زائد افراد کو نظر بند کیا گیا۔
ابتداء میں مدارس نے اس عمل پر تحفظات کا اظہار کیا تاہم بعد میں کچھ شرائط کے تحت یہ تنظیمیں مدارس کو قومی دھارے میں لانے پر تیار ہو گئیں۔
مدارس کی تنظیموں کا ماضی میں یہ موقف رہا ہے کہ حکومت اصلاحات میں سنجیدہ نہیں، مدارس کی رجسٹریشن کا عمل وزارت تعلیم کو دیا جانا چاہیے نہ کہ وزارت مذہبی امور کو۔
مدرسہ اصلاحات کے تحت حکومت نے مدارس کو اس بات کا پابند بنایا تھا کہ وہ یہ یہ ضمانت دیں کہ ان کا مدرسہ کسی قسم کی دہشت گردی، انتہا پسندی، فرقہ واریت یا ملک دشمنی میں ملوث نہیں ہو گا اور نہ ہی ایسی کوئی تعلیم دے گا۔ مدارس کو اپنے ذرائع آمدن بتانے کے علاوہ آڈٹ بھی کرانا ہو گا۔