پاکستان میں رمضان کا چاند دیکھنے میں دو روز کا وقت لگ جانا کوئی انہونی بات نہیں ہے، لیکن سعودی عرب میں یہ اچنبھے کی بات سمجھی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں سپریم کورٹ کی دو دن تک رمضان کا چاند دیکھنے کی اپیل نے ہلچل مچا دی ہے۔
سعودی سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ رمضان کا چاند ہفتہ کی شام کو دیکھا جائے اور نظر نہ آنے پر اتوار کو بھی چاند دیکھنے کا اہتمام کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے توجہ دلائی کہ ہفتے کو ام القریٰ کیلنڈر کے لحاظ سے شعبان کی 29 تاریخ ہے اگر کسی کو مملکت کے کسی بھی شہر،قصبے یا بستی میں ہفتے کو چاند نظر آجائے تو وہ قریب ترین عدالت پہنچ کر اپنی شہادت قلمبند کرادے۔ ہفتے کو چاند نظر نہ آنے کی صورت میں اتوارکو چاند دیکھنے کی کوشش کی جائے۔
سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ 29 رجب کو مطلع ابر آلود ہونے کے باعث چاند نظر نہیں آیا تھا، لہذا ہفتے (6 اپریل) کورجب کا 30 واں دن قرار دے دیا تھا۔ ام القری کیلنڈر کے لحاظ سے شعبان کا مہینہ ہفتہ 6اپریل سے شروع ہوگیا تھا۔
ام القریٰ کیلنڈر کیا ہے؟
سپریم کورٹ کے فیصلےاورام القری کیلنڈرکےدرمیان فرق آجانے پردنیا بھر میں سوالات کھڑے ہوئے کہ آخرام القریٰ کیلنڈر کیا ہے؟
تقویم ام القریٰ ویب سائٹ کے مطابق ام القریٰ قمری کیلنڈر ہے۔ اس کے تحت مہینوں کا تعین چاند کی گردش کے حساب سے کیا جاتا ہے۔ اس کیلنڈر میں سال کے موسموں کا تعین بھی سورج کی گردش کے حساب سے کیا جاتا ہے۔
سعودی عرب کا سرکاری کیلنڈرام القری ہے اورحج، روزےاورزکوٰة سمیت مختلف مذہبی احکامات کے سلسلے میں ام القری ہجری کیلنڈر پرعمل کیا جاتا ہے۔عوامی سطح پر بھی اسی پر اعتبار کیا جاتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے طول البلد اورعرض البلد کو ام القریٰ کیلنڈر کی اساس مانا گیا ہے۔
اسلامی قمری ہجری تاریخ کی شروعات خلیفہ دوم عمر فاروق نے کی تھی۔ انہوں نے پیغمبر اسلام کی مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کو اسلامی کیلنڈر کی بنیاد قرار دیا تھا۔یہ واقعہ 15جولائی 622ءکو پیش آیا تھا۔
پہلی بارام القریٰ کیلنڈر 1927کومکہ میں سرکاری پریس نے جاری کیا۔ پھر 1979سے اس کی اشاعت ریاض سرکاری پریس سے کی جانے لگی۔
ام القریٰ کیلنڈر کو بہتر بنانے کا عمل جاری رہا۔ اس سلسلے میں اہم ترین اقدام یہ کیا گیا کہ کنگ عبدالعزیز سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سٹی کے سربراہ کی نگرانی میں ام القری کیلنڈر کی تیاری کے لیے نگراں کمیٹی تشکیل دی گئی۔ یہ کمیٹی ایک طرف تو اسلامی امور کے ماہرین پر مشتمل تھی اور دوسری جانب اس میں علم الفلک کے ماہرین کو شامل کیا گیا۔
1999میں مکہ میں خانہ کعبہ کے طول البلد اورعرض البلد کو ام القریٰ کیلنڈر کی بنیاد قراردیا گیا۔ یہ بھی طےکیا گیا کہ مکہ میں سورج غروب ہونے کے بعد چاند نکلنے کا انتظار کیا جائےگا۔
زمانہ قدیم سے اقوام مہینوں اورسالوں کے تعین کے لیے چاند ہی کا سہارا لیتی رہی ہیں۔ سب سے پہلے بابلی تمدن نے ہفتے کوسات دنوں میں تقسیم کیا اور قمری مہینوں کو کیلنڈر کی بنیاد بنایا ۔ ان کے بعد چین پھر مصریوں اور ان کے بعد اہل ہند نے یہی طریقہ اپنایا۔ پھر اسلام سے قبل عربوں نے بھی انہی کی پیروی کی۔ البتہ جدید دور میں قمری کیلنڈر بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کا سہرا اسلامی تمدن کے سر ہے۔