عالمی تنقید کے بعد برونائی میں ہم جنس پرستی پر سنگساری کی سزا معطل
جنوب مشرقی ایشیاء کے ملک برونائی دارالسلام کے سلطان حسن البلقیہ نے عالمی سطح پر سخت تنقید کے بعد اعلان کیا ہے کہ ہم جنس پرستی اور زنا کے مرتکب افراد کو سنگسار نہیں کیا جائے گا۔
حسن البلقیہ نے اتوار کی رات کو اپنے خطاب میں کہا کہ برونائی کے عام فوجداری قانون کے تحت دی جانے والی سزائے موت پر عارضی پابندی کا اطلاق شرعی قانون کے تحت سزا پانے والوں پر بھی ہوگا۔
تاہم ناقدین نے مطالبہ کیا ہے کہ حالیہ دنوں میں متعارف کرائے جانے والے شرعی قوانیں کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔
برونائی کے نئے شرعی قانون کا مکمل اطلاق گذشتہ ماہ ہو گیا تھا جس کے بعد برونائی دارالسلام مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا کا واحد ملک بن گیا تھا جہاں قومی سطح پر شرعی قوانیں نافذ ہوئے۔
نئے شرعی قوانین کے تحت ہم جنس پرستی کی سزا سنگسار اور چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔
مذکورہ شرعی قوانین کے نفاذ پر کئی ممالک اور انسانی حقوق کی بین الااقومی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی جب کہ اقوام متحدہ نے بھی ان قوانین کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
برونائی کے قومی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی تقریر میں سلطان نے پہلی مرتبہ شرعی قوانین کے نفاذ پر ہونے والی تنقید پر تبصرہ کیا۔ سلطان حسن البلقیہ نے کہا کہ شرعی قوانین کے حوالے سے بہت زیادہ غلط فہمیاں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عام فوجداری قوانین اور شرعی قوانین کا مقصد ملک میں امن اور ہم آہنگی کو یقینی بنانا ہے۔
برونائی میں کچھ جرائم مثلاً قتل کی سزاعام قانون کے تحت بھی موت ہے لیکن کئی دہائیوں سے کسی کو بھی پھانسی نہیں ہوئی ہے۔
سلطان حسن البلقیہ کے مطابق برونائی میں عام قوانین کے تحت دی جانے والی پھانسی کی سزاؤں پر عمل در آمد پر عارضی پابندی ہے اور اس کا اطلاق شرعی قوانین کے تحت سنگ ساری کی سزا پر بھی ہوگا۔
لیکن حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سلطان کا اعلان کافی نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ’دا برونائی پراجیکٹ‘ کے بانی میتھو وولفی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اس اعلان سے حقیقی طور پر کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس اعلان میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں کی شرعی قوانین کے حوالے سے کئی شکایات کو زیر غور نہیں لایا گیا۔
شرعی قوانین کے تحت مردوں کے آپس میں جنسی تعلقات کی زیادہ سے زیادہ سزا سنگسار (پتھر مار کر ہلاک کرنا) ہے تاہم مجرموں کو لمبی قید یا کوڑوں کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
خواتین کے آپس میں جنسی تعلقات پر زیادہ سے زیادہ سزا 40 کوڑے یا 10 سال تک قید کی سزا ہے۔
سلطان کے اعلان سے قید، کوڑوں کی سزا یا چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور یہ سزائیں لاگو رہیں گی۔
سلطان نے کہا ہے کہ برونائی تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے چارٹر کی تجدید کرے گا جس پر ان کا ملک کئی سال پہلے دستخط کر چکا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے ایشیاء فل رابرٹسن کا کہنا ہے کہ پورا قانون انسانی حقوق کے خلاف ہے جسے ختم کیا جانا چاہیے۔
اگرچہ سلطان کے اعلان سے برونائی کے ہم جنس پرستوں کو ریلیف ملا ہے لیکن ان کا کہنا ہے مذکورہ قانون ان کے خلاف امتیازی سلوک کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
برونائی کے ایک ہم جنس پرست شہری خیرل نے اے ایف پی کو بتایا کہ سلطان کے بیان کے بعد بھی ہم جنس پرست افراد کو نفرت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خیال رہے اس سال مارچ میں برونائی کے وزیرِاعظم کے دفتر کی جانب سے جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ سخت شرعی سزاؤں پر مبنی قوانین 3 اپریل سے نافذ العمل ہوں گے۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق شرعی قوانین ایسے جرائم کے خلاف ہیں جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں اور یہ قوانین ہر فرد کو چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، مکمل آزادی اور تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں۔
برونائی دارالسلام میں مئی 2014 میں اسلامی شریعت کے مطابق سزاؤں کا نظام متعارف کرایا گیا تھا۔
ابتدائی قوانین کے تحت رمضان کے مہینے میں روزہ نہ رکھنے اور جمعے کی نماز ادا نہ کرنے والوں کے لیے جرمانے اور قید کی سزائیں تجویز کی گئی تھیں۔