Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا یہ واقعی پاکستان کا آئی ایم ایف سے آخری معاہدہ ہوگا؟

پاکستان کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ چھ ارب ڈالر قرض کے لئے معاہدہ طے پانے کا اعلان کرتے ہوئے اسے پاکستان کا آخری آئی ایم ایف پروگرام قرار دیا تاہم معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اسے آخری بنانے کے لئے آئی ایم ایف کے معاشی اور ساختیاتی اصلاحات پر اصل روح کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔ 
حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ماضی کی حکومتوں نے ساختیاتی اصلاحات پر توجہ نہیں دی جس سے پاکستان کے دیرینہ معاشی مسائل حل نہیں ہوئے۔
ماضی میں بھی حکومتوں نے آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرتے وقت اسی طرح کے دعوے کیے لیکن یہ دعوے صرف دعوے ہی رہے۔
معاشی تجزیہ کار مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پاکستان آئی ایم ایف کے تازہ پروگرام پر اس کی اصل روح کے ساتھ عمل کرتی ہے تو یہ بالکل آخری پروگرام ہوسکتا ہے۔
 اگر ماضی کی طرح تھوڑے حالات بہتر ہونے کے بعد پھر استثنا دینا اور گردشی قرضے بڑھانا شروع کیے تو پاکستان کو پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ ’یہ 22 واں پروگرام ہے اور لازماً 23 ویں پروگرام کے لیے تین یا پانچ سال فنڈ کے پاس جانا پڑے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے ساختیاتی ریفارمز کے مطالبے پر اگر حکومت پورے جذبے کے ساتھ عمل کرتی ہے تو پاکستان موجودہ معاشی بحران سے نہ صرف مکمل طور پر نکل آئے گا بلکہ ملک کے معاشی مسائل بھی مستقل طور پر حل ہو جائیں گے۔
تاہم معاشی تجزیہ کار اور ٹاپ لائن سکیورٹینز کےچیف ایگزیکٹو آفیسر محمد سہیل کا کہنا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کا ٹریک ریکارڈ سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ پاکستان کا آخری پروگرام ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کے پاس سخت معاشی اصلاحات کے لیے کتنا سیاسی عزم ہے۔
مزمل اسلم کے مطابق اصلاحات آسان نہیں ہوں گی، وقتی طور پر بہت زیادہ مشکلات ہوں گی، مہنگائی میں اضافہ ہوگا تاہم یہ وقتی ہوگا۔ اصلاحات کی کامیابی سے پاکستان کے معاشی مسائل حل ہوں گے۔
ان کے مطابق 2008 سے 2019 تک یہ تیسرا آئی ایم ایف پروگرام ہے اور ان کی شرائط بھی تقریباً ایک جیسی ہیں۔ ’اس کا مطلب ہے کہ ہمارے مسائل ویسے کے ویسے ہی ہیں بلکہ بڑھے ہیں۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بڑے مسائل میں انرجی سیکٹر کی اصلاحات بھی شامل ہیں۔ 
مزمل اسلم کے مطابق بجلی کی قیمتیں بڑھانا اس مسئلے کا حل نہیں ۔ ’ہرحکومت یہی کرتی ہے کہ بجلی کی قیمتیں بڑھا کر اس مسئلے کو وقتی طور پر ٹال دیتی ہے لیکن اس کا اصل حل بجلی کی چوری روکنا، لائن لاسز کم کرنا، ٹرانسمیشن اور ڈسڑی بیوشن کے نظام کی درستی کے ساتھ سستی بجلی پیدا کرنا بھی ہے۔‘
معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد کے مطابق حکومت اس بار ضروری معاشی اصلاحات کرنے میں سنجیدہ نظر آرہی ہے۔ ’اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کا بہت کچھ سٹیک پر لگا ہوا ہے۔‘
خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے ضروری معاشی اصلاحات پوری روح کے ساتھ کیں تو اس کے نتائج تین سے پانچ سال میں ظاہر ہوں گے۔
آئی ایم ایف معاہدے کی شرائط کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں 300 یونٹ تک کے استعمال پر اضافے کی چھوٹ ایک اچھی بات ہے۔
محمد سہیل کے مطابق معاہدے کی شرائط مناسب ہیں لیکن پروگرام کا سائز چھوٹا ہے۔ ’مجھے توقع تھی کہ پروگرام کا سائز اس سے بڑا ہوگا۔ 

شیئر: