کیا سعودی عرب غیر ملکیوں کے لیے ناپسندیدہ ملک بن رہا ہے؟
کیا سعودی عرب غیر ملکیوں کے لیے ناپسندیدہ ملک بن رہا ہے؟
بدھ 22 مئی 2019 3:00
عبدالستار خان -اردو نیوز، جدہ
سعودی عرب میں کام کرنے والے غیر ملکی ورکرز اپنی دستاویزات دکھاتے ہوئے (تصویر: اے ایف پی)
سعودی عرب کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس غیر ملکی کارکنوں کے لیے ویزوں کی شرح میں 72.6 فیصد کمی کی گئی ہے۔
سعودی وزارت محنت وسماجی فروغ کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال جاری ہونے والے ورک ویزوں کی تعداد 5 لاکھ 57 ہزار تین سو 25 تھی جبکہ اس کے مقابلے میں معاشی بحران سے قبل سنہ 2015 میں جاری ہونے والے ورک ویزوں کی تعداد 20 لاکھ 31 ہزار 2 سو اکیانوے رہی۔
قبل ازیں رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ گذشتہ دو برسوں میں سعودی لیبر مارکیٹ سے 16 لاکھ غیر ملکی نکل گئے ہیں ۔ وطن واپس جانے والوں میں انڈین پہلے جبکہ پاکستانی دوسرے نمبر پر ہیں۔
وطن واپس جانے والے ان غیرملکیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ تعمیرات کا شعبہ متاثر ہوا ہے جبکہ گذشتہ برس سب سے زیادہ نئے ویزے بھی تعمیرات کے شعبے میں کام کرنے والے کارکنوں کو جاری کیے گئے۔
ان تمام حقائق اور مسائل کے باوجود سعودی عرب آج بھی غیر ملکی کارکنوں کے پسندیدہ ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔
مقامی اخبار الوطن میں جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے سروے میں 10 ملین افراد سے ملازمت کے لیے پسندیدہ ممالک کے متعلق رائے پوچھی گئی تھی۔ سروے کے مطابق دنیا بھر کے ورکرز کے نزدیک امریکہ پسندیدہ ممالک کی فہرست میں پہلے جبکہ روس نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اسی طرح سعودی عرب کارکنوں کے لیے پسندیدہ ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر رہا۔
غیر ملکیوں پر عائد فیس کے علاوہ ان کے ہمراہ رہنے والے اہل خانہ میں سے ہر ایک فرد پر ماہانہ فیس مقرر کرنے کی وجہ سے نہ صرف لیبر مارکیٹ متاثر ہوئی بلکہ مجموعی معیشت پر اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ نئے ویزوں کے اجرا میں کمی کے علاوہ لیبر مارکیٹ سے بڑی تعداد میں پاکستانیوں سمیت غیر ملکیوں کا نکل جانا اس کی بڑی وجہ ہیں۔ جدہ، ریاض اور دمام سمیت بڑے شہروں میں پاکستانی علاقوں میں گھروں کے کرایوں میں کمی اور ہر عمارت میں کرایہ پر دستیاب اپارٹمنٹ کے بورڈ ظاہر کر رہے ہیں کہ یہاں سے بڑی تعداد میں لوگ جا چکے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیر ملکیوں کے حوالے سے اس قدر سخت پالیسیاں اختیار کرنے سے ملکی معیشت پر پڑنے والے اثرات حکام کو نظر نہیں آ رہے یا وہ ا س سے بے خبر ہیں؟ اس کے علاوہ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا سعودی حکام اور پالیسی سازوں کو اس بات کا اندازہ تھا کہ غیر ملکیوں پر فیس عائد کرنے کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟
حقیقت یہ ہے کہ سعودی پالیسی سازوں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ان کو سخت فیصلوں کے اثرات کا علم ہے۔ ’ہمیں اندازہ ہے کہ فیسوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں غیر ملکی خاندان واپس چلے جائیں گے۔‘
سعودی وزیر خزانہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران دو ٹوک اور واضح انداز میں کہا تھا کہ ’سعودی عرب میں 11 ملین غیر ملکی ہیں، ہمیں صرف 3 ملین کی ضرورت ہے۔‘