Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئی خاص خبر نہیں، کوئی شاباش نہیں

کہتے ہیں کہ کرکٹ از بائی چانس، انگریزوں کی اس سوغات میں مزہ ہی اتنا ہے کہ آپ مبہوت ہوئے بنا نہیں رہ سکتے۔ 20 /22 کروڑ عوام کے دل کی دھڑکن ہے یہ کرکٹ۔
خاص طور پر جب انڈیا اور پاکستان کا میچ ہوتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے مانو جنگ چھڑ گئی ہو۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جنگ بارڈر کی جگہ ٹوئٹر پر چھڑتی  ہے اور ہاری اور جیتی جاتی ہے۔
کمال ہے نا کہ تقریباً 52 فیصد کی آبادی کے باوجود وومن کرکٹ کی کارکردگی کے بارے میں کوئی توجہ نہیں دلاتا۔
’ندا رشید ڈار‘ یہ نام شاید کم ہی لوگوں نے سنا ہو گا۔  ندا نے انٹرنیشنل کرکٹ میں اپنا سفر 2010  میں شروع کیا۔ ندا ڈار کا کردار کپتان کے طور پر وومن کرکٹ میں کافی مضبوط ہے۔
2012  میں آئر لینڈ کے خلاف شاندار کھیلا مگر 46  پر آؤٹ ہوگئیں. انڈیا کے خلاف میچ میں تو ندا ڈار نے کمال ہی کر ڈالا جب صرف 12 سکور دے کر3 کھلاڑیوں کو آوٹ کرکے پاکستان کی جیت کو یقینی بنا دیا اور ورلڈ کپ کے تین میچز میں ندا ڈار کا مشترکہ سکور 82  رہا۔

کسی چینل نے وومن کرکٹ ٹیم کو اس قابل نہیں سمجھا کہ اُن کی محنت کو سراہا جائے۔ تصویر:اے ایف پی

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس آل راؤنڈر پلیئر نے حالیہ میچز میں بھی اپنے نام کا ڈنکا بجایا ہے۔ 9 فروری 2019 میں ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر ٹوٹل سکور میں سے 81 سکور کیا اور 15 اور 18 مئی کے میچز میں جو کہ جنوبی افریقہ کے خلاف تھے 53 اور 32  سکور بنائے جس میں پاکستان کی جیت ہوئی ہے۔
قوم کی اس بیٹی کی کارکردگی  کے بارے میں کسی نے لب کشائی نہیں کی، کیوں؟ سرفراز اگر ملکہ برطانیہ  سے ملنے بھی چلے جاتے ہیں تو خبر بنتی ہے اور اگر قوم کی بیٹیاں ملک کا نام دنیا میں روشن کرتی ہیں تو کوئی خبر نہیں، کوئی شاباش نہیں، ایسا کیوں؟
کسی چینل نے وومن کرکٹ ٹیم کو اس قابل نہیں سمجھا کہ اُن کی محنت کو سراہا جائے کیونکہ وہ لڑکیاں ہیں اور لڑکیاں کرکٹ نہیں کھیلا  کرتیں۔
قوم کی ایسی بیٹیاں جو اپنے جنون کے پیچھے اپنے خاندان سے لڑتی رہیں، چھپ چھپ کر کرکٹ پریکٹس کرتی رہیں، اچھی پرفارمنس دیتی رہیں، اُن بچیوں کا نام تک نہیں کیوں؟

قوم کی ایسی بیٹیاں جو اپنے جنون کے پیچھے اپنے خاندان سے لڑتی رہیں، اُن کا نام تک نہیں، کیوں؟ تصویر:اے ایف پی

کیا کروڑوں کے اس ملک میں ندا ڈار جیسی بچیوں کو کوئی نہیں سراہے گا؟ کیونکہ مردوں کے معاشرے میں کرکٹ صرف مردوں کی ہی میراث ہے۔ آپ اگر یہ الزام لگائیں کہ میں صرف عورتوں کے حقوق کی بات کرتی ہوں تو کیا یہ غلط ہے؟
اس ملک کے لوگ جب تک صاف نیت اور صاف دل سے اس  ملک کی عورتوں کو آگے بڑھنے کے مواقع نہیں فراہم کریں گے،عورتیں کیسے آگے آئیں گی؟ اس گھبرائے ہوئے معاشرے میں کون حوصلہ دے گا؟
کون بتائے گا کہ اس ملک کی صنف نازک میں بھی اتنا ہی دم ہے جتنا یہاں کے مردوں میں، یہاں عورتیں بھی شاندار کھیل کر ملک کا نام روشن کر سکتی ہیں۔ کیوں ندا ڈار جیسی نڈراور اچھی کرکٹ کھلاڑی کو اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کے لیے کوئی شاباشی  نہیں دے گا؟

ہم انگلیاں اٹھانے والے  ہاتھ تالیوں کے لیے کیوں نہیں اٹھا سکتے؟ تصویر:اے ایف پی

ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا. ایسی باصلاحیت بچیوں کو آگے لانا ہوگا جو ہمارے ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کریں گی. جب بھی ورلڈ کپ کی بات ہوتی ہے تو میل پرفارمرز کی ہی بات کیوں کی جاتی ہے؟ کیا خواتین کرکٹ ٹیم اس ملک کا حصہ نہیں؟ خدا کے لیے مرد اور عورت کی اس تقسیم کو ختم کیجیے اور میرٹ پر فیصلہ کیجیے۔
جب ہم فخر سے ثانیہ مرزا کا نام لیتے ہیں تو ندا ڈار کا کیوں نہیں لیتے؟ اس لیے کہ شعیب ملک نے ثانیہ مرزا سے شادی کر کے اُسے اس پوری قوم کی بھابھی بنا دیا ہے یا اس لیے کہ وہ ہمارے ملک کی سٹار نہیں ہے یا وہ ہمارے ملک میں نہیں کھیلتیں. جب ہم  فلاں ایکٹرس کی بات کرتے ہیں کہ وہ بہت خوبصورت ہے، جب ہم اُن کے کرداروں پر انگلیاں اٹھا سکتے ہیں تو ہم یہ کیوں نہیں کہہ سکتے کہ فلاں کرکٹر بہت اچھا کھیلتی ہے؟
تو پھر ہم وہی انگلیاں اٹھانے والے ہاتھ تالیوں کے لیے کیوں نہیں اٹھا سکتے؟

شیئر: